کایا پلٹ — اشفاق احمد خان

0
84

دلاور سے مجھے انتہا کی نفرت تھی۔ قصبے کے ٹی ہاؤس میں میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں اپنی میز پر تنہا بیٹھا تھا کہ اچانک ایک بھاری بھر کم جسم والا آدمی میرے سامنےآ بیٹھا۔ میں نے ناگواری سے اُسے دیکھا لیکن اُس کےہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر خاموش ہو گیا۔ مگر اُس وقت میرے غصے کی انتہا نہ رہی جب اُس نے میرے سامنے پڑا ہوا اخبار اُٹھا کر پڑھنا شروع کر دیا۔ میرا دل چاہا کہ اُس کےہاتھ سے اخبار چھین لوں لیکن اُس کے بھاری بھر کم جسم کودیکھ کر حوصلہ نہ ہوا۔ چناں چہ میں بے بسی کے گھونٹ پی کررہ گیا۔
چند منٹ بعد اُس نے چائے منگوائی۔ اب اندازہ کریں، چائے پینے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ لیکن اُس نے جس زور و شور سے چائے پینا شروع کی، اس نےمیرے ہی نہیں اردگرد بیٹھے لوگوں کے چہروں پر بھی کچھ اچھا اثر نہیں ڈالا۔ بہت سے لوگ اُسے ناگواری سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن اُس پر ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔ وہ اُسی طرح بلند آواز سے اپنا شغل جاری رکھے ہوئے تھا۔ سُڑک سُڑک کی کرخت آواز ٹی ہاؤس میں گونج رہی تھی اور میرا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔ میری خواہش تھی کہ وہ میرے خیالات کومحسوس کرلے۔عین اُسی لمحے اُس نے چائے ختم کر کے میز پر رکھی اورمیرے چہرے کی طرف دیکھا۔ پھر اُس نے محسوس کر لیا کہ میری آنکھوں میں اُس کے لیے نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ قریب بیٹھے ہوئے لوگ بھی اُسے اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ شرمندہ سا ہو کر اُٹھ گیا اور بو جھل قدموں کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔ اُس کے اس انداز کو دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور شرمندگی بھی۔ لیکن جب اُس کا اجازت کے بغیر اخبار اُٹھا کر پڑھنا اورچائے پینے کا انداز یاد آیا تو میرے دل میں اُس کے لیےنفرت کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
کچھ دن پہلے میں شہر سے تبدیل ہو کر اس قصبے کے ڈاک خانے میں پوسٹ ماسٹر لگا تھا اور مجھے سزا کے طور پر اس دُور دراز قصبے میں بھیجا گیا تھا۔ کیوں کہ بد قسمتی سے مجھےمیں ایمان داری کے جراثیم بہت ہیں اور بے ایمانی تو میں برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے میرے افسروں نے ناراض ہو کر مجھے یہاں بھیج دیا تھا۔یہ قصبہ اہم تجارتی مرکز ہے اور ڈاک خانے کے علاوہ یہاں ایک بینک بھی ہے۔ بہت سے لوگوں نے بینک اور ڈاک خانے میں اپنے اکاؤنٹ کھول رکھے تھے۔ ہر ماہ لاکھوں کا لین دین ہوتا تھا۔ میں نے آتے ہی دن رات محنت کر کے ریکارڈ کو اوّل سے آخر تک چیک کیا۔ یہ میرا اصول ہے کہ پہلے سب حسابات مکمل کرتا ہوں، پھر کام شروع کرتا ہوں۔ بظاہر تو حسابات بالکل ٹھیک نظر آرہے تھے ، لیکن میرے دل میں کسی بڑی گڑبڑ کا احساس ابھر رہا تھا۔ چناں چہ میں نے تین دن اس چھان بین میں لگا دیے۔تب مجھے پتا چلا کہ حساب میں لاکھوں کا ہیر پھیر ہے۔میں نے اچھی طرح تسلی کر کے کیشیئر امین اور نائب پوسٹ ماسٹر اکرم کو بلایا۔ یہی اُن تمام معاملات کے ذمے دار تھے ۔ یہاں کئی ماہ سے پوسٹ ماسٹر کی سیٹ خالی تھی اور اسی دوران میں انہوں نے یہ گھپلا کیا ہو گا۔ امین اور اکرم ایک ساتھ اندر آئے۔ دونوں شکل سے ہی بڑے شرارتی اور بگڑے ہوئے نظر آتے تھے۔ اندر آتے ہی وہ بغیراجازت میرے سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ شاید اُن کےذہن میں بھی یہ بات آچکی تھی کہ میں نے انہیں کس لیےطلب کیا ہے۔ یہ اُن کی دیدہ دلیری کی انتہا تھی۔

اکرم صاحب، یہ رجسٹر دیکھے آپ نے؟” میں نےمیز پر پڑے رجسٹروں کی طرف اشارہ کیا۔
انہیں تو روزانہ ہی دیکھتے ہیں، سر اکرم نےلا پروائی سے جواب دیا۔
” پھر تو مجھے یہ بتانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی کاین رجسٹروں اور ریکارڈ کے مطابق لاکھوں روپے کا ہیر پھیر ہو چکا ہے”۔
جی سر” ہم جانتے ہیں ” امین نے دانت نکال کر کہا۔
“شٹ اَپ!” میں نے اُسے جھڑ کا لاکھوں کا غبن کر کے بھی اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر رہے ہو ؟…. میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا”۔
پولیس یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتی، سر” اکرم نے سنجیدگی سے کہا اُسی کے تعاون سے تو ہمارا کام چلتا ہے”۔
” اوہ! اب سمجھا، تمہاری بے خوفی کی وجہ” میں نے بات کی تہ تک پہنچ کر کہا۔ وہ یقیناً پولیس کو بھی پیسے دیتے رہے تھے۔
“جی، سر بہتر تو یہی ہے کہ آپ بھی ہم سے تعاون کریں اکرم نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”ورنہ کیا ہو گا؟” میں نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
پولیس آپ ہی کو غبن کے الزام میں پکڑ لے گی”امین نے مسکراتے ہوئے کہا۔
عام طور پر مجھے اتنا غصہ نہیں آتا جتنا اُس وقت آیا -دل تو چاہا کہ ابھی فون کر کے پولیس کو بلاؤں اور ان دھوکے بازوں کو گر فتار کروا دوں، لیکن صورت حال کا تقاضا تھا کہ معاملے کو ٹھنڈے دل و دماغ سے حل کیا جائے۔چناں چہ میں نے کہا :ٹھیک ہے ، تم لوگ جاؤ۔ میں تمہاری پیش کش پر غورکروں گا”۔
بہتر سر۔ آپ ہمیں اپنا خادم پائیں گے ” اکرم نےاُٹھتے ہوئے کہا۔
اُن کے باہر جانے کے بعد میں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اُن کے کہنے کے مطابق پولیس بھی اُن کے ساتھ تھی۔لیکن ساری پولیس تو اُن کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ پولیس میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اور میں نے ان اچھے لوگوں کا کھوج لگانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے اس بات کی ضرورت تھی کہ غبن کے ٹھوس ثبوت تیار کیے جائیں۔چناں چہ میں نے ان لوگوں کے خلاف فائل بنانا شروع کردی۔ دو دن بعد فائل تیار تھی۔ اب مسئلہ کسی ایمان دارپولیس افسر تک پہنچنے کا تھا۔ میں دفتر میں بیٹھا انہی سوچوں میں گم تھا کہ دس بارہ سال کا ایک لڑکا اندر آیا اور مجھے ایک چٹ دے گیا۔ میں نے اُسے کھول کر دیکھا۔ ٹوٹی پھوٹی سی لکھائی تھی، جیسے کسی تیسری جماعت کے بچے نے لکھی ہو ۔ لکھا تھا:
”صاحب مہربانی ہوگی اگر چند منٹ کے لیے اس لڑکے کے ساتھ آکر مجھ سے مل لیں” دلاور –
دلاور کو میں اُس وقت تک نام سے نہیں جانتا تھا۔ پھر بھی میں خاموشی سے بلا جھجک لڑکے کے ساتھ چل دیا۔ وہ مجھے تھوڑی دور ایک پارک میں لے گیا۔ اور وہاں جو دلاور میرے سامنے آیا وہ وہی شخص تھا جو اُس دن ٹی ہاؤس میں میری میز پر آ بیٹھا تھا اور جس کی حرکتوں کی وجہ سے مجھے اس سے نفرت محسوس ہوئی تھی۔ اُسے دیکھ کر مجھے دھچکا سا لگا اور غصہ بھی آیا کہ میں اس گھٹیا آدمی کے ایک ذرا سے رقعے پر چلا آیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ بول اٹھا:صاحب آپ کو اس طرح بلانے کی معافی چاہتا ہوں۔
اُس کے منہ سے نکلنے والا یہ شائستہ فقرہ مجھے حیران کرگیا اور میرے دل میں اُس کے لیے نفرت کچھ کم ہو گئی۔میں نے بھی نرمی سے کہا کوئی بات نہیں۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟
صاحب سُنا ہے آپ بڑے ایمان دار اور سخت افسر ہیں ۔
“تمہیں یہ کس نے بتایا؟ تم سے تو میرا کوئی واسطہ نہیں پڑا” میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
بس، صاحب چند بے ایمانوں نے یہ بات مجھ تک پہنچا ہی دی۔ دلاور کی آواز میں افسوس تھا۔
میں سمجھا نہیں تمہاری بات؟
کچھ لوگوں کو آپ کی ایمان داری سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔۔۔ اس لیے انہوں نے آپ کو پھنسانے کامنصوبہ بنایا ہے۔
“کیسا منصوبہ؟” میں نے حیرانی سے پوچھا۔
دلاور نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو روپے کے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر میز پر رکھ دی۔یہ رقم مجھے آپ کے دفتر میں چھپانے کے لیے دی
گئی ہے۔
“کیا ..؟” میں نے بے یقینی سے کہا۔
“ہاں، صاحب۔ آپ کے دفتر کے دو آدمی، امین اوراکرم، میرے پاس آئے تھے”۔
اوہ! تو یہ اُن کا کام ہے ۔ میں نے کہا اور پھر پوچھا :مگر تم نے یہ رقم میرے کمرے میں چُھپائی کیوں نہیں اور مجھے بتا کیوں دیا؟
صاحب لوگ مجھے برا آدمی سمجھتے ہیں۔ میں لاکھ بُراسہی مگر اتنا بُرا بھی نہیں۔ میرے جیسے بُرے لوگ تو ہزاروں ہیں مگر آپ جیسا نیک اور ایمان دار آدمی کوئی کوئی ہوتاہے۔ کیا نیکی کی اس روشنی کو میں ذرا سے لالچ کے لیے بجھا دُوں ؟ یہ مجھ سے نہیں ہو گا صاحب نہیں ہو گا۔ دلاور کی آواز بھرا گئی۔

میں ہکا بکا اس کا منہ تک رہا تھا۔ مجھے اپنے خیالات اور رویے پر ندامت ہو رہی تھی۔ اب وہ اب وہ مجھے اکھڑ ، بد مزاج یا بڑا آدمی نہیں، ایک معصوم فرشتہ لگ رہا تھا۔ پھر میں نےاُسے ساری صورت حال بتائی۔ اپنی اور اُن لوگوں کی گفت گو سُنائی۔ یہ سب سُن کر دلاور سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ دیرخاموشی کے بعد بولا :صاحب، قصبے کے ڈی ایس پی صاحب بہت ایماندار آدمی ہیں۔ وہ تو اِس کام میں اُن کے مددگار نہیں ہو سکتے۔ البتہ ایس ایچ او اور اُس کا عملہ اُن کی مدد کر رہاہو گا۔
پھر تو ہمیں ڈی ایس پی صاحب سے ملنا ہو گا۔ میں نے کہا۔جی ہاں۔ آپ دفتر سے فائل لے آئیں تاکہ اُن کودکھا کر اپنی بات ثابت کر سکیں۔
میں کچھ ہی دیر میں وہ فائل لے آیا۔ اکرم اور امین ان باتوں سے بے خبر تھے۔ انہیں یہ علم نہ تھا کہ وہ اپنے بچھائے ہوئے جال میں خود ہی پھنس رہے ہیں۔ ڈی ایس پی صاحب دلاور کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ ہماری بات انہوں نے پوری توجہ سے سُنی – فائل کا بھی مطالعہ کیا۔مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے ایس ایچ او کو فون کیا اور امین اور اکرم کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔میں جب ڈاک خانے واپس آیا تو دلاور میرے ساتھ
تھا۔ میں سارے راستے اُسے یہی سمجھاتا آیا تھا کہ وہ بُرےکام بالکل چھوڑ دے۔
تو اور کیا کروں، صاحب؟ اس نے پوچھا۔
نوکری کرو اور عزت کی زندگی گزارو۔
” مجھے نوکری کون دے گا صاحب؟” اُس کے چہرےپر درد تھا۔
میں تمہیں نوکری دُوں گا۔۔۔۔ کرو گے؟
کیوں نہیں، صاحب؟ باعزت زندگی گزارنے کی خواہش کےے نہیں ہوتی ؟
یوں دلاور کو میں نے دفتر میں ملازم رکھوا دیا اور اُس کی زندگی کی ڈگر بدل گئی۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here