ننھے نے سلیٹ خریدی ——-احمد ندیم قاسمیؔ

0
278

احمد ندیم قاسمیؔ
ننھا عزیزسر پر غلیظ سا بستہ رکھے تھکے تھکے قدم اٹھائے ہولے ہولے گنگناتا جا رہا تھا۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا!کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا!
اس نے اچانک قدم روک لئے اور زمین کو بڑی سنجیدگی سے دیکھنے لگا پھر بستے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر اوپر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلکا نیلا آسمان جس پر دو چار چیلیں منڈلا رہی تھیں۔
اس نے مسکرانے کی کوشش کی مگر مسکراہٹ پر حیرت نے فتح پا لی۔
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا!
وہ اپنی انگلی دانتوں میں دبائے کچھ سوچتا ہو قدم اٹھانے لاگا، ایک دو بار مویشیوں کے گلوں نے اسے تکلیف دی اور وہ ایک طرف دیوار سے چمٹ کر ہر بیل کو خوف سے گھور گھور کر دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی نگاہیں ایک جوان بیل کے مر مریں ایسے سفید سموں پر جم گئیں اور پھر اس نے اپنے میلے کچیلے پائوں کی طرف دیکھا جو پرانی چپل میں مردہ روحوں کی طرح پڑے تھے۔ میل سے بھرے ہوئے بے جان اور بد صورت ، اسکے ذرا سے دماغ نے ایک بہت بڑی تجویز سوچی۔ اگر اللہ میاں کہیں ملیں تو پہلے انیہں سلام کر کے ( کیونکہ ماسٹر جی نے بڑوں کو سلام کرنے کی زبردست تلقین کر رکھی تھی) یہ عرض کروں گا۔
اچھے اللہ ، انسان کے پائوں بڑے خراب ہیں۔ انسان چلتا پھرتا ہے ،بھاگتا دوڑتا ہے تو اسکے پائوں میں کنکر چبھ جاتے ہیں، میل جم جاتا ہے، کئی بار زخمی ہو جاتے ہیں پائوں۔۔۔۔ اگر یہ بیلوں کے سموں کی طرح ہڈی کے بنے ہوئے ہوں تو کیا حرج ہے؟
وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے سے اسے گائوں کا سب سے بڑارئیس مشکی گھوڑے پر سوار نظر آیا۔ اسکی گرکابی سورج کی شعاعوں میں شیشہ کی طرح چمک رہی تھی۔ اور جب وہ عزیز کے پاس سے گزرا تو آپ ہی آپ کی عزیز کی نگاہیں اسکے پائوں پر جم گئیں۔جو دودھ کی طرح سفید تھے۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا سے اپنی غلطی واپس مانگ رہا ہو۔۔۔اتنے صاف پائوں! سم کیا شے ہے انکے مقابلے میں! مگر میں بھی تو ایک انسان کا بیٹا ہوں۔ میرے پائوں اتنے غلیظ کیوں ہیں! یہ الٹی بات اسکی سمجھ میں نہ آتی تھی وہ اس سوچ میں غرق آہستہ آہستہ جا رہا تھا کہ اچانک اسے راستہ میں ابھرے ہوئے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی۔ بستہ اچھل کر دور کنکریوں پر جا گرا اور اسکے دائیں پائوں کے انگوٹھے سے خون جاری ہو گیا۔اسے پھر ایک ثانیہ کیلئے بیل کے سموں کے فوائد کا خیال آیا مگر درد کی شدت نے اسکے دماغ میں ہلچل مچا دی۔ اس نے چیخ مار کر رونا چاہا مگر سامنے اسکول کے برآمدے میں ماسڑجی کھڑے ہاتھوں میں کھریا مٹی کا ایک ٹکڑا اچھال رہے تھے۔ اسکی چیخ حلق تک آئی اور وہ کڑوہ دوا کیطرح آنکھیں بند کر کے پی گیا۔ زخم پر مٹی ڈال کر اٹھا، بستہ کو چھوا تو اسکا دل دھک سے ہوا اور اسکا بستہ ایڑیوں میں جا گرا۔ اسکی سلیٹ ٹوٹ گئی تھی۔وہ ضبط نہ کر سکا اور پورے زور سے رونے لگا ۔ ماسٹر جی بڑے رحمدل تھے۔ دوڑے دوڑے آئے ، ننھے کو تسلی دیتے ہوئے۔ کہا۔۔۔۔جیجے !اٹھ آج میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ آج کاغذ پر سوال نکال لینا۔ کل سلیٹ خرید لانا اور ہاں اب لوہے کی سلیٹ خریدنا جیسے اصغر کی ہے۔
اصغر کی؟ عزیز نے سوچا، مگر اصغر کا باپ تو پٹواریوں کا بڑا افسر ہے اور میرا باپ پٹواری اور جنگل کے داروغہ کی گائے بکریوں کیلئے چارہ کاٹنے والا! لوہے کی سلیٹ پر تو بڑے پیسے خرچ آئینگے اور کل رات ہم لوگ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بھینسے کا گوشت نہ خرید سکے تھے ،اب کیا ہو گا؟
اس نے بستہ سر پر اٹھایا ، غیر ارادی طور پر اسکی انگلیاں بستے کے اندر کھڑکھڑاتے ہوئے سلیٹ کی ٹکڑوں کو ٹٹولنے لگیں۔ اور جب وہ لڑکوں کے جمگھٹ میں داخل ہوا تو اس کی چیخیں سن کر اسکول کے احاطے سے باہر اکٹھے ہو گئے تھے ۔ اس کا چہرا فخر سے لال ہو گیا۔ماسٹرجی اس کی انگلی تھامے ہوئے تھے، لڑکے بھی اس کی طرف ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کیونکہ ماسٹر جی نے اس سے ہمدردی کی تھی۔ چٹائی پر بیٹھ کر اس نے بستہ سے سلیٹ کے ٹکڑے یوں نکالے جیسے اپنے سینے سے دل کے ٹکڑے نکال رہا ہے۔ ایک بڑا ٹکڑا اپنے پاس رکھ لیا اور باقی ایک جھاڑی میں پھینک آیا۔ ماسٹر جی سوال لکھانے لگے تو اس نے اپنی سلیٹ کی طرف دیکھا جس کے بے شمار کنارے چاقو کی دھار کی طرح تیز تھے پھر پیچھے مڑ کر قطار کے آخری سرے پر اصغر کی سلیٹ کی طرف دیکھا، نئی سلیٹ جسکے ساتھ ایک مٹھی بھر اسفنج لٹک رہا تھا۔ اس نے نفرت سے اپنی ننھی سی ناک چڑھا کر اپنی سلیٹ پر زور سے تھوکا اور ہتھیلی سے مل کر سوال حل کرنے لگا۔ چھٹی کے بعد وہ گھر واپس آ رہا تھا کہ راستہ میں اپنا باپ مل گیا جو پٹواری کی گائے کیلئے چارہ کاٹ کر لا رہا تھا۔ اسکے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور پھر ہر رونگھٹے کی جڑ سے پسینہ پھوٹ نکلا ، سلیٹ کے ٹکڑے کے تیز کنارے اسکے دماغ کو چیرنے لگے۔
باپ نے پوچھا، بیٹا چھٹی ہو گئی؟
ہاں ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا کہتے وقت اسکا حلق گھٹ گیا لیکن کھانسی کا بہانہ کر لیا اور پھر غیر متوقع کامیابی پر جی ہی جی میں خوش ہونے لگا۔
’’گھر جا کر سلیٹ پر خوب سوال نکالنا۔‘‘
سلیٹ ٹوٹ گئی، اس نے یہ جواب دینا چاہا لیکن اس کی نظر باپ کے بھاری اور کھردرے ہاتھ پر پڑ گئے جو اس کے گال پر پڑتا تھا تو اسے دن کے وقت بھی نیلے نیلے تارے نظر آنے لگتے تھے۔اس لئے وہ خاموش رہا۔ اسکے باپ نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا۔ سنا؟
ہاں!
اس کا باپ پٹواری کے گھر کی طرف چلا گیا اور وہ اپنے گھر آگیا ۔ ماں کو دیکھ کر اسکا جی بھر آیا۔ آنسو امڈ آئے اور زار و قطار رونے لگا۔
کیوں میرے بچے ، تیرے دشمن روئیں تو کبھی نہ روئے۔ میرے بچے کیا بات ہے؟
یہ کہتے ہوئے ماں بڑی محبت سے اسکے گالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ ماں میری سلیٹ ٹوٹ گئی۔ اسکی ماں دھم سے دیوار سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئی جیسے اسکا نالائق بیٹا عمر بھر کی کمائی دریا میں بہا آیا ہے۔ عزیز نے روتے ہوئے اپنی باچھوں کی پوری قوت سے ٹھوڑی کی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ اماں ابا کو نہ بتانا۔ ماں نے اپنے گنگن کو مضطربانہ انداز میں اپنی کلائی میں گھماتے ہوئے پوچھا تو پھر کیا سر پرنکالے گا سوال؟ عزیز سوچنے لگا کہ اگر سر پر سوال نکالے جا سکتے تو وہ روتا ہی کیوں؟ اسکی اماں کتنی بھولی ہے! آخر ان پڑھ ہے نا! پڑھی لکھی ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ سوال سر پر نہیں صرف سلیٹ پر نکالے جا سکتے ہیں۔اس دن نہ اس نے ماں سے گُڑ مانگا، نہ جوار کے ہلکے پھلکے مرنڈے ، نہ کبڈی کھیلی نہ آنکھ مچولی، اسکے ہم جھولی اس کے پاس اکٹھے ہو گئے ، مجبور کرنے لگے باہر چلو ، لیکن ایک سیانالڑکا پیچھے سے مجمع چیرتا ہوا آیا اور بولا ، ارے یار بچے کو مت چھیڑو، اسکی سلیٹ ٹوٹ گئی ہے۔ عزیز کے دل پر جیسے کسی نے من بھر کا ہتھوڑا جما دیاہو۔ کانپ کر اٹھا کہ کہیں باپ تو نہیں آگیا ۔ لیکن بیل چارے کے انتظار میں کان کھڑے کئے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے اور ماں چولہے کے پاس بیٹھی ٹین کے پترے سے ساگ کتر رہی تھی۔
بس وہ چار پائی پر پڑا رہا اور کچھوے اور خرگوش کی کہانی پڑھتا رہا۔اسے کئی بار خرگوش پر غصہ آیا ،کتنا غافل تھا خرگوش!ٹھیک اس طرح جیسے۔۔۔۔۔۔۔جیسے۔۔۔۔ جیسے ،اسے کوئی مثال نہ مل سکی۔اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ جیسے ۔۔۔ میں۔۔۔۔اور پھر اسے اپنے آپ پر اتنا غصہ آیا ۔جی میں آیا کہ ابھی اپنے آپ کو قبر میں دفن کر دے اور اپنی موت پر ایک آنسو تک نہ بہائے اور پھر خوشی خوشی اسکول۔۔۔۔اس کا دماغ گھومنے لگا۔
جتنا خیالات کا سلسلہ بڑھتا جا تا تھا اس کی وحشت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا اور جب اندھیرا بڑھنے لگا اور اس کی ماں پکاری، جیجے! ادھر آ،روٹی ٹھنڈی ہو رہی ہے،تو اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا: ’’ماں! میری سلیٹ ٹوٹ گئی ہے‘‘۔
کب؟ مگر یہ آواز ماں کی نہ تھی۔
اس نے دیکھا اس کا باپ بڑی بڑی آنکھیں نکالے اس کی طرف بڑھا آرہا تھا،کب توڑی؟
اس نے خود کو قبر میں دفن کرنے کی تجویز پر پھر سے غور کرنا چاہا،مگر باپ کے تھپڑ نے اس کے سلسلہ خیالات کو منتشر کر دیا اور وہ اتنا رویا ۔۔۔۔اتنا رویا کہ آخر اسے رونے میں لطف آنے لگا۔وہ اپنا رونا بند نہیں کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اس طرح ماں کی تسلیوں کے رک جانے کا اندیشہ تھا۔
چپ کرتا ہے یا لگائوں ایک اور؟۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کی آوازیوں رک گئی جیسے ریڈیو سے کسی ’’میم‘‘ کا گانا سنتے سنتے تنگ آکر لوگ پیچ گھماتے ہیں۔
سلیٹ بھی توڑ آیا اور ریں ریں بھی کیے جاتا ہے۔۔۔۔اندھا۔۔۔۔اندھے تو سامنے دیکھ کر کیوں نہیں چلتا؟۔۔۔۔ہیں۔۔۔یہ ہمیشہ تیری نظر آسمان پر کیوں رہتی ہے؟ جیسے اللہ میاں سے باتیں ہو رہی ہیں۔ ۔۔ اندھا۔۔۔ تو تو مجذوب!۔۔مجذوب ۔۔۔۔۔۔۔کتنی بڑی گالی دی ہے ابا نے؟۔۔۔۔۔ابا کی جگہ کوئی اور ہوتا تومیں اسے اٹھارہ بار مجذوب کہ ڈالتا۔
اور جب اس کا باپ اٹھ کر چوپال کو چلا گیا تو اس نے نہایت راز دار لہجہ میں پوچھا۔ماں مجذوب کسے کہتے ہیں؟
جسے اللہ میاں کے سوا کسی کا خیال نہ ہو۔۔یعنی اللہ میاں کا دوست۔
عزیز سوچنے لگا کہ کیا اللہ میاں کا دوست ہونا بھی بری بات ہے؟
وہ صبح اٹھا تو باپ اس کے سرہانے کھڑا تھا۔اٹھتا ہے یا جمائوں ایک؟۔۔۔۔بے فکرا۔۔۔۔۔لے یہ چونی تیری خاطر دس آدمیوں کی داڑھی کو ہاتھ لگانا پڑا،ابھی قصبے سے جا کر سلیٹ خرید لا،سکول کے وقت آجائیو،سمجھے؟
عزیز نے چار پائی سے اٹھ کر زمین پر قدم دھرا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا دل پسلیوں تلے ناچ رہا ہو اور اس کی آواز کے ساتھ اس کے ہونٹ کانپ رہے ہیں، آنکھیں آپ ہی آپ جھپکی جا رہی ہیں۔نتھنے پھڑک اٹھے ہیں ،رگ رگ دھڑک رہی ہے۔ وہ باپ سے چونی چھین کر دوڑا ہی تھا کہ جوتا تو پہن جا ، تیرا تو سر پھر گیا ہے۔ اس نے مڑنے سے پہلے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا ۔اس کا خیال تھا کہ اس کا چہرہ پیٹھ کی طرف ہو گیا ہے۔۔۔۔باپ کے تھپڑ کی وجہ سے۔۔۔۔ آخر سر پھرنے کا اور کیا مطلب ہے؟ جب تسلی ہو گئی کہ وہ اپنی پرانی حالت پر قائم ہے تو اسے تعجب ہونے لگا کہ اس کا باپ اتنا جھوٹ کیوں بولتا ہے؟
جوتا پہن کر بھاگا ۔قصبہ وہاں سے ایک میل دور تھا ۔چونی اس کی قمیص تلے پہنی ہوئی سیاہ صوف کی واسکٹ کی جیب میں تھی۔ایک دو بار اس نے چونی کے گول گول کونوں کو ٹٹولا،چونی اس کی جیب میں موجود تھی اور نئی سلیٹ قصبہ کی ایک دکان میں اس کی منتظر۔
ایک جگہ سستانے کے لئے بیٹھ گیا۔اچانک اس کے سامنے جھاڑیوں سے اصغر آنکلا۔اس کے ہاتھ میں اس کی نئی سلیٹ تھی جس کے ساتھ مٹھی بھر اسفنج لٹک رہا تھا۔اصغر نے اپنی سلیٹ کو فخریہ انداز میں گھمایا اور عزیز نے یوں محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ میں بھی سلیٹ ہے جو ٹین کی طرح بجتی ہے اور جس کے ساتھ ماسٹر جی کی ناک جتنا موٹا اسفنج لٹک رہا ہے(ماسٹر جی کی ناک عزیز کی مٹھی سے بڑی تھی)اصغر کی آنکھیں جھک گئیں اور وہ پلٹ کر پھر جھاڑی میں گم ہو گیا۔کتنا پیارا خیال، کیسا سُندر سپنا؟۔۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور پھر دوڑنا شروع کیا۔
قصبہ کے تنگ و تاریک بازار کی دکانیں کھل چکی تھیں۔وہ سلیٹوں کی دکان کو خوب پہچانتا تھا۔دکان دار ایک موٹا سا سیٹھ تھا جس نے اپنی ڈھیلی ڈھالی توند اپنے گھٹنوں پر پھیلا رکھی تھی۔وہ صرف ایک دھوتی باندھے ہوئے تھا۔ عزیز کانپتا ہوا اس کے پاس گیا۔
سلیٹیں ہیں؟ یہ سوال اس نے اس انداز سے پوچھا تھا گویا وہ ساری سلیٹیں خریدنے آیا ہے۔
دکان دار نے اپنی ناف سے بھنبھناتی مکھیاں اڑاتے ہوئے جواب دیا : ہاں۔
دکھائو!
دکان دار نے اپنے بازو زمین پر ٹیک کر اٹھنے کی کوشش کی اور بہت دیر تک اسی حالت میں کانپتا رہا۔
عزیز پکارا۔
لالہ جی!
ہاں بھائی ہاں! دکان دار کھڑا ہوا اور عزیز کے سامنے دس پندرہ سلیٹیں رکھ دیں۔
لوہے کی ہیں؟
سب لوہے کی ہیں۔
دام؟
تین آنے۔
ایک آنہ بچ گیا۔عزیز کے گال تمتمانے لگے۔اس کی ننھی سی ناک پر ۔اس کے کھلے سفید ماتھے پر ،اس کے بھرے سے نچلے ہونٹ کے تلے پسینا پھوٹ آیا۔اسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ ابھی یہاں دکان سمیت ہوا میں اُڑجائے گا۔
اسفنج ہیں؟
ہاں!
سب سے بڑے اسفنج کے دام؟
چار پیسے۔
عزیز خوشی سے ناچنا چاہتا تھا،ایک بار تو اس کے جی میں آیا کہ دکان دار سے لپٹ کر گائے: ’’تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا‘‘۔
لیکن اس کی توند دیکھ کر اس کی نظر اپنے پیٹ پر جا پڑی جو ریڑھ کی ہڈی سے چمٹ کر رہ گیا تھا۔ایک لمحہ کے لیے وہ مسکرانا بھول گیا اور آخر بولا:
لائو یہ سلیٹ اور ایک بڑا اسفنج۔
دونوں چیزیں اپنے قریب کھسکا کر اس نے اپنی قمیص اٹھائی اور واسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا،اس کی دونوں انگلیاں جیب سے باہر نکل گئیں،چونی راستے میں کہیں گر گئی تھی۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here