ہر دور میں بچوں کے لئے معیاری ادب کی ضرورت موجود رہی ہے ۔اردو زبان میں بچوں کے لئے معیاری ادب کے فروغ کے لئے ماہنامہ ” انوکھی کہانیا ں “نے ایک نئی روایت قائم کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ماہنامہ ”انوکھی کہانیا ں “ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ۔ ماہنامہ ”انوکھی کہانیا ں “ کراچی کے ایڈیٹر محترم محبوب الٰہی مخمور صاحب کی تحریریں بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے بہت سی دلچسپ کتابیں بھی تحریر کی ہیں ، جب کہ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کے بر کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کے لئے ”پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ“ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیا د بھی رکھی ہے ۔ محترم محبوب الٰہی مخمور ایڈیٹر ماہنامہ” انوکھی کہانیاں “ کے اس انٹرویو میں آپ کو ان کے حالات زندگی کے علاوہ ان کی جدوجہد کی پوری تفصیل بھی پڑھنے کو ملے گی ۔خاص طو ر پر بچوں کے لئے لکھنے والے ادیبوں کے لئے یہ انٹرویو بہت ہی مفید معلومات پر مشتمل ہے ۔سوال: اپنے بارے میں کچھ بتائیں کہ آپ نے تعلیم کہاں کہاں سے حاصل کی اور آپ کا بچپن کیسے گزرااور بچپن میں آپ کو کیا بننے کا شوق تھا؟
جواب : میں نے میٹرک انجمن اسلامیہ گورنمنٹ اسکول لیاقت آباد سے کیا، بی اے سراج الدولہ کالج سے ، ایم اے صحافت اور ایم اے اردو وفاقی اردو کالج سے کیا۔ بچپن عام بچوں کی طرح گزرا ، کھیل کود کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہی ۔ پہلی جماعت سے ایم اے تک کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی۔ اپنے طور پر ہی خود تیاری کی اور ہر کلاس میں پاس ہوتا رہا۔ میری ایک خواہش تھی کہ کسی کالج میں لیکچرار لگ جاﺅں مگر تا حال یہ نہیں ہو سکا۔
سوال: آپ کی سب سے پہلی تحریر کس میگزین میں شائع ہوئی اور اپنی پہلی تحریر کی اشاعت پر آپ کے کیا تاثرات تھے اور جب آپ نے با قا عدہ لکھنے کا آغاز کیا تو کیا کسی سے رہنمائی بھی حاصل کی ؟
جواب: میری پہلی تحریر1978ءمیں” بچوں کے مشرق“ میں شائع ہوئی ۔ اپنی تحریر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ پھر تو میں نے تحریروں کے ڈھیر لگادئےے۔ اُس زمانے میں ”بچوں کے مشرق“ کا آٹھ صفحات کا میگزین آتا تھا۔ جس میں پورے پاکستان سے بچے لکھتے تھے اور پورے پاکستان میں بے حد مقبول تھا۔ جب میں نے باقاعدہ لکھنا شروع کیا تو میرے والد صاحب نے میری رہنمائی کی اور میرے حوصلہ افزائی کی۔ ساتھ ساتھ میں رسائل اور کتابیں پڑھتا رہا جس کی وجہ سے مجھے کہانیا ں لکھنے میں بے حدآسانیاں ہوتی ۔
سوال: کس عزم کے تحت آپ نے بچوں کے لئے ”انوکھی کہانیاں“ میگزین شائع کرنے کا فیصلہ کیا؟آپ کے میگزین میں شائع ہونے والی تحریریں بچوں کی کردار سازی میں انہیں کیا معاونت فراہم کرتی ہیں؟
جواب: ماہنامہ ”انوکھی کہانیاں “ کراچی کا بیڑہ میرے ساتھ مزید تین دوستوں نے اُٹھایا۔ مصطفےٰ چاند (موجودہ مصطفےٰ ہاشمی معروف ڈرامہ نگار) نے اس کے ڈیکلریشن کے لئے کاشش کی اور جون 1991 ءمیں ہمیں ڈیکلریشن مل گیا اور اگست 1991ءمیں انوکھی کہانیا ں کا پہلہ رسالہ مارکیٹ میں آگیا ۔ سب نے بڑی خوشیا ں منائیں اور یوں یہ سلسلہ تین ماہ چلتا رہا ۔ ہم نے اپنی جیبوں سے پیسے خرچ کر کے رسالہ جاری رکھا ۔ مگر تین ما ہ بعد تینوں دوستوں نے معذرت کر لی کہ یہ بہت محنت طلب کا م ہے اور بچوں کے رسائل کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔اس لئے اب رسالہ بند کر دینا چاہیے۔ اس پر میں نے کہا کہ رسالہ میرے حوالے کر دیں میں اس کو نکالتا رہوں گا، سب نے حیرت سے مجھے دیکھا اور رسالہ مجھے دے دیا گیا ۔ باقی تینوں دوست اپنی اپنی راہوں پر چل دئےے۔ اب رسالہ کی تما م ذمہ داری میرے کندھوں پر تھی۔ میں نے تن تنہا تمام امور سنبھالے اور رسالے کو جاری رکھا ۔ کئی مرتبہ مالی وسائل کی کمی ہوگئی مگر میرے والد الٰہی بخش چشتی نے ہر ممکن تعاون کیا اور میرا حوصلہ بڑھایا کہ میں رسالہ جاری رکھو۔ انوکھی کہانیا ں کا مقصد ایک ایسا رسالہ تھا کہ جس میں بامقصد تحریریں شائع ہوں ۔جب میری ملاقات جولائی 1991ءمیں شہید پاکستان حکیم محمد سعید صاحب سے ہوئی تو انھوں نے پوچھا تھا کہ آپ کے رسالہ کا مقصد کیا ہے تو میرا جواب یہ تھا ”پاکستان سے محبت اور اسلامی روایات پر مبنی کہانیا ں “۔ آج میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انوکھی کہانیا ں نے بچوں کے با مقصد ادب کو فروغ دیا ہے اور یہ رسالہ سکینڈری سے ڈگرری لیول کے طالب علموں کا رسالہ ہے ۔ میگزین بچوں کی کردار سازی میں یوں معاونت فراہم کرتا ہے کہ اس کے ذریعے انہیں بامقصد اور اصلاحی کہانیاں پڑھنے کے لئے ملتی ہیں ۔ ان کے ذوق مطالع کی تسکین ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اردو پڑھنے اور لکھنے میں بہتری آتی ہے ۔ کہانی میں موجود سبق یا کوئی پیغام غیر محسوس طور پر اس پراثرانداز ہوتا ہے ۔ اس سے ان کے کردار وافکار کی تشکیل ہوتی ہے ۔آج کے طالب علموں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اردوپڑھنا بالکل چھوڑ دیا ہے اور مطالعہ کی جانب راغب نہیں ہوتے ہیں ۔اس کی وجہ سے طالب علموں کے لئے اردو پڑھنا اور لکھنا ایک مشکل امربن گیا ہے ۔ وہ فزکس ، میتھ اور انگریزی فر فر سمجھتے ہیںاور پڑھتے ہیں ،اردو کے دو چار جملے لکھنے میں اُن کی جان نکلتی ہے ۔یہ سب مطالعہ کتب سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ ایک زمانے میں گلی گلی میں لائبریریاں ہوتی تھیں ۔ جہا ں سے بچے وبڑے ابن سفی سے لے کر نسیم حجازی تک کے ناول لے کر پڑھا کرتے تھے ۔ جس سے ان کے کردار کی تشکیل ہوتی تھی ۔ آج کا بچہ مووی اور ویڈیوگیمز میں پڑگیا ہے اُسے ہر جگہ شارٹ کٹ کی تلاش ہے اور جرائم کی دنیا کے نت نئے طریقوں سے اُسے آگاہ کیاجاتا ہے ۔
سوال: کیا میگزین کی اشاعت کے ابتدائی دور میں آپ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کے لئے شائع ہونے والے بہت سے میگزین کچھ عرصہ بعد بند ہوجاتے ہیں؟
جواب: بچوں کے رسائل کو پاکستان میں ہمیشہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔ کیونکہ بچوں کے ادب اور ادیب کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیںہے اور حکومتی شعبے میں بچوں کے ادیب کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے ۔ رسائل کو اشتہارات نہ ملنے کے برابر ہیں ۔بچوں کے رسائل کو سرکاری اشتہارات بالکل نہیں دئےے جاتے ہیں ۔ اس پر آشوب دور میں آخر رسائل بند نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا ۔
سوال: آپ کا میگزین 22 سال سے بچوں کو معیاری ادب فراہم کر رہا ہے ، اس عر صہ کے دوران حکومتی سطح پر یا ادب سے وابستہ اداروں اور تنظیموں کی طرف سے آپ کو پزیرائی ملی ؟اب تک آپ کتنے ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں ؟
جواب: جی ہاں ! 22 سال سے انوکھی کہانیا ں مسلسل شائع ہو رہا ہے ۔ اس دوران سوائے چند ایک مواقع کے SONY DSC،حکومتی سطح پر کبھی کوئی پزیرائی نہیں ہوئی ہے ۔شعبہ بچوں کا ادب دعوة اکیڈمی نے تھوڑی بہت حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پرکبھی کچھ نہیں دیا گیا ہے ۔ رہی بات ایوارڈ ز کی تو میںنے دعوةاکیڈمی اور یونی سیف کے مقابلوں میں متعدد ایوارڈ حاصل کئے ہیں ۔ نیشنل بک فاﺅنڈیشن کی جانب سے بحیثیت مصنف متعددبار انعامات واسناد سے نوازا گیا ہے ۔ میری اپنی کتاب ”امن مشن “ کو پنجاب بھر کے اسکولوں میں دس ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا گیا۔اس کے علاوہ ہمارے ادارے الٰہی پبلی کیشنز ی کی پچاس ہزار کتابیں بھی حکومت پنجاب نے لائبریریوں کے لئے خریدی ہیں۔
سوال: پاکستان میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لئے شاید کچھ اور تنظیمیں بھی کام کرر ہی ہوں گی ۔آپ نے” پاکستان چلڈرن رائٹر گائیڈ“ کے نام سے جو تنظیم بنائی ہے اس میں کیا خاص بات ہے اور اس تنظیم کے مقاصد کیا ہیں ۔” پاکستان چلڈرن رائٹر گائیڈ“ کو اب تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے ؟
جواب: بچوں کے ادب میں ایک تحریک کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔جو بچوں کے ادب کو پروان چڑھا سکے۔بچوں کے ادیبوں نے ہزاروں ایسی کہانیاں، نظمیں اور مضامین لکھے جن کی الگ ادبی شناخت ہے،مگر انھیں مناسب مقام نہ مل سکا۔بچوں کے کئی رسائل کچھ عرصے بعد آہستہ آہستہ منظر عام پر سے ہی غائب ہوگئے ۔اور پھر قلم کاروں کی تو ایک طویل فہرست ہے جن کے کام کو نہ صرف سامنے لانے کی ضرورت ہے بلکہ انھیں سراہنے کی بھی ۔جو فکر معاش اور دیگر وجوہ کی بناءپر بچوں کے ادب کو خیر باد کہہ چکے ہیں ۔بچوں کے قلم کاروں اور رسائل کی بہتری کے لیے کچھ حساس قلم کاروں نے پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ تشکیل دی ۔گائیڈ کے پہلے اجلاس میں باہمی مشورے گائیڈ کے یہ عہدیدار منتخب ہوئے۔صدرسید اشرف بیتھوی، سینئرنائب صدر محبوب الہیٰ مخمور،گائیڈ کے نائب صدر نوشاد عادل، جنرل سیکرٹری سید صفدر رضا رضوی،جوائنٹ سیکرٹری محمد وسیم خان،ڈپٹی سیکرٹری محمد سعید سعیدی، میڈیا سیکرٹری غلام محی الدین ترک اور مشاورتی کونسل کے ممبر سید رفیع الزماں۔
” پاکستان چلڈرن رائٹر گائیڈ“ کے تحت ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم ، وہ سب اقدامات کریں جس سے بچوں کے ادب کو فروغ مل سکے ۔ مثال کے طور پر، بچوں کے قلم کاروں کی کتابوں کی اشاعت ،سستی کتابوں کی اشاعت،بچوں کے ادیبوں کا اپنی مدد آپ کے تحت ایک فنڈ کا قیام جس کے ذریعے کتابوں کی اشاعت اور مستحق ادیبوں کی مالی معاونت ،اگر کوئی ادیب اپنی کتاب خود شائع کرانا چاہے تو گائیڈ اسے معاونت کی پیش کش کر سکتی ہے۔ بچوں کے رسائل کے درمیان خاص نمبر کا مقابلہ منعقد کروانا،قلم کاروں کے لیے بچوں کے ادب کے معمار کے حوالے سے مختلف ایوارڈز کا اجرائ،حکیم محمد سعید ایوارڈ،مسعود احمد برکاتی ایوارڈ، مظہر یوسف زئی ایوارڈ، محمود شام ایوارڈ،نئے قلم کاروں کو ہر ممکن رہنمائی فراہم کرنا،قلم کاروں کے درمیان رابطہ فراہم کرانا،سینئر قلم کاروں کے اعزاز میں اعتراف کمال کی تقاریب منعقد کرنا اور انھیں اعزازات سے نوازنا،ادیبوں کی سالگرہ پر گائیڈ کی طرف سے مبارک باد اور رسائل میں تصویر کے ساتھ پیغام شائع کرانا،گاہے بگاہے قلم کاروں کے لیے گائیڈ قلم کار انسٹی ٹیوٹ کا قیام،بچوں کے ادیبوں کے لیے ایک مرکز کی تعمیر جس میں لائبریری، قلم کاروں کی رہائش کے لیے ہوسٹل، سیمینار ہال وغیرہ شامل ہیں۔بچوں کے ادب پر ایک ویب سائٹ کی تشکیل،بچوں کے ادیبوں کے دن منانا،مرحوم ادیبوں کے اعزاز میں یادگاری تقاریب منعقد
کرنا،قلم کاروں کے لیے تقریب پذیرائی منعقد کرانا،قلم کاروں کی کتابوں کی تقریب رونمائی، گاہے بگاہے قلم کاروں کی تربیت کے لیے ورکشاپ کا انعقاد،بچوں کے ادب سے متعلق سیمینار، کانفرنس،لیکچر،تصویر ی نمائش کا انعقاد،بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے سمعی و بصری ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال،بچوں کے رسائل و کتابوں کی نمائش کا انعقاد،بولتی کہانیوں کے ذریعے بچوں میں ادب کا شوق پیدا کرنا،بچوں کے پاکستانی ادب سے انتخاب شائع کرنا،بچوں کے عالمی ادب سے انتخاب شائع کر کے اسے اردو میں شائع کرنا،مختلف ممالک کی لوک کہانیوں کا انتخاب اردو زبان میں شائع کرنا،پاکستان کی علاقائی زبانوں کا انتخاب اردو زبان میں شائع کرنا ،بیرون ملک قائم بچوں کے ادب سے وابستہ تنظیموں سے روابط وغیرہ۔
”پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ“ نے اپنے پہلے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ جو ادیب بھی کراچی آئے گا،اس کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جائے گا،بچوں کے معروف قلم کار اورماہنامہ گلونا کے مدیر عمران یوسف زئی کی کراچی آمد پر گائیڈ نے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنایا۔سفاری پارک میں ہونے والی اس خوبصورت تقریب میں بچوں کے کئی ادیبوں نے شرکت کی۔بچوں کے ادب کے فروغ کے حوالے سے کئی تجاویز بھی پیش کی گئیں ،جن ادیبوں نے اس استقبالیہ میں شرکت کی ان میںگائیڈ کے سابق صدر سید اشرف بیتھوی، گائیڈ کے جنرل سیکرٹری سید صفدر رضا رضوی،گائیڈ کے سینئر نائب صدر نوشاد عادل ،گائیڈ کے نائب صدر اور ماہنامہ انوکھی کہانیاں کے مدیر محبوب الہٰی مخمور،گائیڈ کی ادبی کمیٹی کے نگران سید رفیع الزماں ،روزنامہ ایکسپریس کے بچوں کے صفحے کرنیں کی ایڈیٹر اور نامور کالم نگارحمیرا اطہر،معروف قلم کار یاسمین حفیظ ،گائیڈ کے ڈپٹی سیکرٹری اور ماہنامہ بزم منزل کے چیف ایڈیٹر محمد سعید سعیدی، میڈیا سیکرٹری غلام محی الدین ترک، ماہنامہ گوگو کے چیف ایڈیٹر ایم مجاہد خان،ناز و انداز کے ایڈیٹر شوکت علی مظفر،معروف شاعروں ڈاکٹر سید نعیم احمد ادیب جعفری ،محمد مشتاق قادری کاشمیری،وردہ دلشاد اور اسامہ احمد نے بھی شرکت کی۔
سندھ میں بچوں کے اد ب کے فروغ کے لیے پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ نے اکتوبر 2011 میں حیدرآباد کا دورہ کیا۔گائیڈ کی دعوت پر سندھ بھر سے پچاس سے زائد قلم کاروں نے اس کنونشن میں شرکت کی۔علاوہ ازیں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے بچوں کے معروف قلم کاروں غلام حسین میمن اور عارف شین روہیلہ کے اعزاز میں تقریب اعتراف کمال بھی منعقد ہوئی۔اس تقریب میں محمد وسیم خان،رئیس احمد شاہین،اعظم سکندر،مولا وفا بخش قمبرانی،میر منظور احمد لنڈ،پیر نوید شاہ ہاشمی،محمد پیرل میرانی،سعید احمد سعید،خلیل جبار،سید وجاہت علی، نیر صدیقی،نصیر شیدائی،رضوان بھٹی،(باقی نام ایڈ کردیں) نے شرکت کی۔
گائیڈ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بچوں کے پانچ رسائل میں ہر ماہ کے بہترین قلم کار کو تین سو روپے کی کتابیں دے گی۔ماہنامہ کرن کرن روشنی بھی اس میں شامل تھا،جب اس کی تقریب ہوئی تو گائیڈ نے نہ صرف اس میں شرکت کا فیصلہ کیا بلکہ پاکستان بھر کے قلم کاروں سے بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔اس تقریب میں گائیڈ نے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سال بھر کے کرن کرن روشنی کے بہترین قلم کاروں میں کتابیں تقسیم کی گئیں،ان قلم کاروں میں محمد طاہر عمیر،صالح جوئیہ،ارباب قربان علی ایری،اسامہ احمد،صالحہ صدیقی،نعیم احمد سیال شامل تھے،اس کے علاوہ وہاں آنے والے پچاس سے زائد قلم کاروں میں دس ہزار روپے سے زائد مالیت کی کتابیں انھیں بطور تحفہ پیش کی گئیں۔ان قلم کاروں میں مظہر کلیم، محمد فہیم عالم،عبد الصمد مظفر(پھول بھائی)،حاجی محمد لطیف کھوکھر، محمد علی،صداقت حسین ساجد،محمد شاہد حفیظ،طارق سمرا،تصور عباس،حافظ حمزہ شہزاد،محمد مزمل صدیقی،ندیم اختر،عبداللہ نظامی،حیات خان نیازی،عادل گلزار،مجاہد خان وغیر ہ شامل تھے۔”پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ“ نے اپنے تنظیمی معاملات کو چلانے کے لئے جن ذمہ داران کا انتخاب کیا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔سر پر ست اعلیٰ:مسعود احمد برکاتی(مدیر نونہال ،سینئر قلم کار،محقق،دانشور)،صدر :محبوب الہٰی مخمور(مدیر انوکھی کہانیاں)،سینئر نائب صدر: ڈاکٹر ؓظفر احمد خان(سینئر قلم کار)، نائب صدر:نوشاد عادل(سینئر قلم کار)،جنرل سیکرٹری :سید صفدر رضا رضوی(سینئر قلم کار)،
جوائنٹ سیکرٹری:محمد وسیم خان(مدیر اعلیٰ نٹ کھٹ)،ڈپٹی سیکرٹری :محمد سعید سعیدی(مدیر اعلیٰ بزم منزل)،انفارمیشن سیکرٹری :غلام محی الدین ترک(محقق و ادیب)،نگران ادبی کمیٹی:پروفیسر محمد ظریف خان (سینئر ادیب و شاعر)،نگران تعلیمی کمیٹی:سید رفیع الزماں(ماہر تعلیم)۔”پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ“ کے دیگر شہروں کے لئے ذمہ داران کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ لاہورمیں صدر:عبدالصمد مظفر(پھول بھائی)، سینئر نائب صدر: طارق ریاض خان(سائنسی بابو)، جنرل سیکرٹری: فرحان ولایت بٹ۔اسلام آباد میںصدر :محمد علی۔ ملتان میںصدر :علی عمران ممتاز(مدیر کرن کرن
روشنی)۔لیہ میںصدر :عبداللہ نظامی(مدیر اعلی تعمیر ادب)اور جنرل سیکرٹری:ندیم اختر(مدیر تعمیر ادب)۔شور کوٹ میںصدر :عبد العزیز چشتی ، سینئر نائب صدر: ابو شفقت اورجنرل سیکرٹری: صداقت حسین ساجد۔ڈیر ہ غازی خان میں صدر :پروفیسر ظہور احمد فاتح اور جنرل سیکرٹری : شبیر ناقد۔واہ کینٹ میں صدر :محمد شعیب خان۔میلسی میںصدر :شاہد حفیظ۔ بورے والا میںصدر :رانا محمد شاہد۔ پشاور میں صدر :عمران یوسف زئی(مدیر ماہنامہ گلونا)۔حیدر آباد میں صدر :غلام حسین میمن اورجنرل سیکرٹری :عارف شین روہیلہ۔محراب پور میں صدر :رضوان بھٹی۔ٹنڈو جام میں صدر :پیر نوید شاہ ہاشمی۔آزادکشمیرمیں صدر :رابعہ حسن باغ میں صدر :محمود گیلانی۔
پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گائیڈ کی طرف سے بچوں کے پانچ رسا لے جن میں انوکھی کہانیاں،بزم منزل (کراچی ) نٹ کھٹ (حیدرآباد)کرن کرن روشنی (ملتان )اور گلونا(پشاور ) شامل ہیں ، کی بہترین تحریروں کو گائیڈ کی طرف سے کتابوں کے تحفے دیئے جائیں گے۔
گائیڈ نے شروع دن سے فیصلہ کیا تھا کہ وہ قلم کاروں کی کتابیں شائع کرتی رہے گی ۔اس ضمن میں اب تک سات کتابیں شائع ہوچکی ہیں،ان میںپراسرار گڑیا،چوں کہ چناں چہ،ساتواں طلسم،قائد اعظم محمد علی جناح،علامہ اقبال ،سوہنی دھرتی اور خوشیوں بھرے غبارے شامل ہیں۔جب کہ پانچ کتابیں ابھی زیر طبع ہیں۔ساتواں طلسم کا انتساب نہ صرف بلوچستان کے بچوں کے ادیبوں کے نام کیا گیا بلکہ اس میں بلوچستان کے کئی ادیبوں کی تحریریں بھی شامل ہیں۔گائیڈ کے اس فیصلے پر بلوچستان کے ادیبوں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ بچوں کے ادب کے حوالے سے بلوچستان میں پروگرامز کرنے کی دعوت بھی دی۔
اس کے علاوہ گائیڈ کی طرف سے بچوں کے ادیبوں کی آپ بیتیوں پر مشتمل ایک اچھوتا سلسلہ شروع کیا گیا۔جس میں ان کی تصاویر، انھوں نے کس طرح لکھنا شروع کیا،اور اپنے ادبی سفر کی داستان ،اس سلسلے میں پہلی آپ بیتی گائیڈ کے سابق ادبی انچارج محمد ظریف خان مرحوم کی ماہنامہ انوکھی کہانیاں میں شائع ہوچکی ہے ۔یہ آپ بیتیاں بہت جلد کتابی صورت میں بھی شائع کی جائیں گی ۔
سوال: پاکستان میںکتابیں پڑ ھنے کا روجحان دن بدن کم ہو رہا ہے اس کے با وجود آپ نے ”الٰہی پبلی کیشنز “کی بنیاد رکھی اور نوجوان نسل کے لئے معیاری ادب پر مشتمل کتابیں شائع کرنے کا اہتمام کیا ؟ آپ نے ”الٰہی پبلی کیشنز “ کی بنیادکب رکھی اور اب تک کتنی کتابیں شائع کر چکے ہیں؟
جواب: یہ بات درست ہے کہ مطالعہ کا شوق دن بدن کم ہو تا جا رہا ہے مگرشائد ہم نے غور نہیں کیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی مطالعہ کتب کا شوق باقی ہے ۔ نیٹ اور چینلز کی بھر مار ان کے ہاں بھی ہے مگر وہ اس حفیفت سے آشنا ہیں کہ کتاب کا مطالعہ ہی کردارسازی کی پہلی سیٹرھی ہے مگر ہمارے یہاں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے میں نے الٰہی پبلی کیشنز کی بنیاد رکھی اور اب تک 50 سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جس میں بچوں وبڑوں کو معیا ری ادب فراہم کیا جا رہاہے ۔ اس ادارے کا کام ان لوگوں کی رہنمائی بھی ہے جواپنی کتابیں خود شائع کرنا چاہتے ہیں ، ساتھ ساتھ کم قیمت میں کتابیں چھاپ کر، ہم کتب بینی کے فروغ کے لئے بھی کوشاں ہیں۔
سوال: آپ بچوں کےلئے زیادہ تر کس موضوع پر لکھتے ہیں اور ابھی تک آپ نے ذاتی طور پر کتنی کتابیں تحریر یا مرتب کی ہیں اور ان میں سے آپ کی سب سے پسندیدہ تحریر یا کتاب کون سی ہے اور کیوں؟
جواب: میں نے سب سے زیادہ بچوں کے لئے لکھا ہے اس کے علاوہ افسانے بھی لکھے ہیں ۔بچوں کے لئے دو کتابیں ”امن مشن“ اور ”سونہی دھرتی “ لکھی ہیں ۔سات کتابوںمیں کہانیا ں شامل ہیں ۔بڑوں کے لئے دوافسانوں کے مجموعے ”شکست شب“ اور ”ایک ٹوٹا ہوا آنسو“ لکھی ہیں۔ دس کتابوں کا ایڈیٹر ہوں ۔ الٰہی پبلی کیشنز کے زیراہتمام چالیس کتابیںشائع کر چکاہوں ۔میں نے تیسری جماعت میں پہلی کہانی کی کتاب ”ٹین کا سپاہی “ پڑھی تھی وہی میری پسندیدہ کتاب و کہانی ہے۔
سوال: وہ بچے جو ”انوکھی کہانیاں“ میں اپنی تحریریں اشاعت کےلئے بھیجتے ہیںان نئے رائٹرز کی تحریروں کی اشاعت کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا جاتا ہے؟ ایک اچھے رائٹر میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیںاور نئے لکھنے والوں کو آپ کیا مشورہ دیں گے؟
جواب: جوبچے ”انوکھی کہانیاں “ میںلکھنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ سب سے پہلے ”انوکھی کہانیاں “اور دیگر رسائل پڑھیں اور اپنے مطالعہ کو وسعت دیں اور دیگر ادیبوں کی کہانیاں پڑھیں اس کے بعدمختصر تحریریں لکھیں پھر تفصیلی کہانیاں لکھیں ۔ انوکھی کہانیا ں میں وہی تحریر جلد از جلد شائع ہوتی ہے جش میں کوئی مقصد ہو اور سبق یا پیغام، اس طر ح ہو کہ پڑھنے والے کو محسوس نہ ہو۔
سوال: پاکستان کے موجودہ حالات کو مدّنظر رکھ کر آپ پا کستانی قوم کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: بچوں اور بڑوں کو چاہئے کہ پاکستان سے محبت کا ثبو ت دیتے ہوئے ،برائیوں کا خاتمہ کریں اپنی زندگی کو تعلیم کے لئے وقف کر دیں اور اسی طرح ہم پاکستان کی خدمت کر کے ترقی دے سکتے ہیں۔