خطوط نویسی،دم توڑتی روایت، ماضی کا مضبوط معاشرتی کردار ڈاکیازوال پذیر ہے — تحریر:عبداللہ نظامی،لیہ

0
237

،انیسویں صدی کے اختتام تک خطوط نویسی دوست احباب اور دور دراز مقیم عزیز و اقارب کی خیریت و عافیت دریافت کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے تھے،خط ہی دور بیٹھ کر فراہمی معلومات اظہار جذبات اور تبادلہ خیالات کا سب سے بڑا وسیلہ بنتے تھے،اپنے پیاروں کے خطوں کا بڑی بے چینی سے انتظار ہوتا تھا،لوگ ڈاکیے کی راہیں تکتے تھے،ذرائع نقل وحمل کی یہ فراوانی نہ ہوتی تھی،ڈیڑھ دو سو میل مسافت کو بہت دور کا پردیس گنا جاتا تھا،جہاں سے آنا جانا سال چھ ماہ سے پہلے کم ہی ہوتا تھا،چنانچہ خط کو اہل خانہ اور عزیز وں کے ساتھ نصف ملاقات سے تعبیر کیا جاتا تھا،اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ ملاقات کے وقت کام کی ایسی باتیں جو کرنے سے رہ گئی ہوتی تھیں وہ خط میں لکھ کر اس آدھی ملاقات کو پوری ملاقات سے بھی زیادہ بنا لیا جاتا تھا،،وقت ملاقات راز و نیاز کی جو باتیں جذباتیت کے طوفان میں ادھوری رہ جاتی تھیں و ہ خط کے ذریعے کر کے تشنگی دور کی جاتی تھی،خط لکھنا جتنا اہم تھا اس کا جواب دینا اس بھی زیادہ ضروری سمجھا جاتا تھا،خط مزاج شناسی اور فکر آشنائی کا ایسا پیمانہ بن گئے تھے کہ ان کے طفیل لفافہ دیکھ کر مضمون کو بھانپ لینے کا گویا فن ایجاد ہوگیا تھا،شہروں اور دیہاتوں میں خواندگی کی شرح کم تھی لیکن جو لوگ معمولی خواندہ تھے وہ بھی اپنی خوش خطی اور زبان و بیان کی مہارت کے لحاظ سے آج کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے بھی بہت بلند ہوتے تھے،اکثر عورتیں اور بزرگ ملازمت کے لئے گھر سے باہر بیٹھے شوہروں اور بھائی بیٹوں کو خط لکھوانے کے لئے محلہ کے کسی ایسے ہی قابل اعتماد خواندہ آدمی سے رجو ع کرتے تھے،خطوط نویسی ایک عام آدمی کی ضرورت نہیں تھی،ایل علم و دانش اور ادباء اور شعراء بھی اسی ذریعے سے ایک دوسرے کی آراء سے آگاہ ہوتے تھے اور صلاح مشورہ کرتے تھے،احترام و محبت اور عقیدت کا خراج بھی پیش ہوتا تھا،تعریف و تقریظ کے پھول بھی برستے اور اختلاف و تنقید کے نشتر بھی چلتے تھے،قلمی مذاکروں کی گرما گرمی ہوتی جس میں ان کی باہمی رقابتوں اورحریفانہ کشاکش کا پتہ چلتا اور علمی ادبی معاملات میں ان کے نقطہ نظر کے فرق کی نشاندہی بھی ہوتی تھی،پس ان کے علمی و ادبی مرتبے کے آئینہ دار ہوتے تھے،خطوط کے آئینے میں ان کی بشری خوبیوں او ر خامیوں اور ذہنی کیفیات کا اندازہ ہوجاتا تھا،مختلف نظریات اور افکار رکھنے والے یہ سب لوگ ایک مشترک خوبی کے بہر حال مالک تھے،اور وہ تھی خط لکھنے اور اس کا جواب دینے کے معاملے میں ان کی پابندی۔سب خط کے جواب کو اپنے ذمہ کاتب کا قرض سمجھتے اور اسے ایک اخلاقی فریضہ جانتے ہوئے جوابی خط ضرور لکھتے تھے،مرزا اسد اللہ غالب کی شہرت و عظمت کی ایک دلیل تو بہر حال ان کی جذبہ اور فکر و فلسفہ کی آمیزش سے نمو پانے والی تیکھی شاعری ہے لیکن جدید اردو ادب کی بنیاد بننے اور زمانہ کی روش سے ہٹ کر ایک منفرد اسلوب کو متعارف کروانے والے ان کے خطوط بھی دراصل ایک کلاسیک کا درجہ رکھتے تھے،نثری شہ پاروں میں غبار خاطر وہ شاہکار ہے جو مطلع علم و ادب پر طلوع ہوا تو طویل عرصے تک دینداروں کو ہی کو نہیں بلکہ سیکولر فکر کے نامی گرامی دانشوروں کو بھی ابولاکلام کے طرز نگارش نے اپنے سحر میں لئے رکھا ہے،ایسے ہی مجموعوں کے باعث خط نویسی میں ادب کی ایک اہم صنف کا درجہ پالیا اور بھی درجنوں اہل علم و دانش ہیں جن کے خطوط ان کی ادبی عظمت کے گواہ بنے۔
خطوط کا تاریخ فہمی میں ایک اہم کردار ہوتا ہے،انبیاء و رسل نے بھی ان کو ہدایت اور دعوت کا ذریعہ بنایا، حضرت سلیمان ؑ کے ملکہ سبا کے نام خط کا نہ صرف قرآن حکیم میں ذکر ہے بلکہ اس کا ایک حصہ نقل بھی ہے،نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے اس وقت کے ارد گرد کے بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کے نام مکاتیب آج بھی محفوظ ہیں،ایسے خطوط کے اثرات و مضمرات کی تفصیل بھی تاریخ کے دامن کا سرمایہ ہے،ماضی قریب کے مشاہیر کے خطوط بھی جہاں زبان و ادب کی خوبصورتی کا مرقع ہیں وہاں ان میں اپنے عہد کے آشوب اور المیوں اور تلخ و شیریں حالات و حوادث اور مسائل کے تذکرے ملتے ہیں وہ اپنے دور کی سیاسی الجھنوں،سماجی روایات،اخلاقی قدروں،نفسیاتی رویوں اور ذہنی رحجانات و میلانات کو سمجھنے میں بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں وہ جہاں اپنے لکھنے والوں کے مزاج اور طبع کی عکاسی کرتے ہیں وہاں ہمعصر شخصیات کے بارے میں بھی ان سے بڑی مفید معلومات ملتی ہیں،علامہ محمد اقبالؒ سمیت بہت سی نامور ہستیوں کے خطوط آج بھی محفوظ اور ان کے ذہن اور فکر کی روشن جہتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں،معروف مذہبی سکالرمولانا سید ابولاعلی مودودی ؒ کے خطوط کے مجموعے مدتوں ان کے علمی خزانے،ان کی فکری رفعت اور دانش و فراست کی گہرائی کی گواہی دیتے رہیں گے،آج جہاں ہماری روایات کا اور قیمتی سرمایہ جدیدیت کے سیلاب کی نذر ہوا جا رہا ہے وہاں پڑھنے کی رسم جو عبادت کے درجے کا عمل ہے وہ بھی اسی طوفان کی لہروں میں بہے جا رہی ہے،پڑھنا اسلامی تہذیب کی اساس ہے،نبی ﷺ پر پہلی وحی پڑھنے کی تاکید کے ساتھ ہوئی تھی،اس دور نے ہم سے پڑھنے کی روایت چھین لی ہے،کتاب پڑھنا چھوٹا تو خطوط نویسی کی عظیم روایت کے ساتھ بھی یہی المیہ بیت رہا،ٹیلی فون جب تک ایک ضرورت تھی اس نے پڑھنے کے معمول کو متاثر نہیں کیا تھا لیکن جب یہ موبائل کی صورت میں ایک وباء بن کر آیا اس کا سب سے منفی اثر مکتوب نویسی پر پڑا،اب خیر خیریت جاننے کے لئے خط لکھنے اس کے لئے لفافہ اور ڈاک ٹکٹ خریدنے کا تردد کون کرے،ہزاروں میل سے ایک دو منٹ میں سب حال احوال بیان ہو جاتے ہیں،ادبیت کی چاشنی،فصاحت و بلاغت کی لذت زبان و بیان کی حلاوت خطوط نویسی کے رحجان کے خاتمے کے ساتھ بھی ایک قصہ پارینہ بن گئی ہے،ایس ایم ایس موبائل کی ایک اور دین ہے جس میں اظہار کا سارا قرینہ بھی غارت کر دیا ہے،انٹرنیٹ کتاب خوانی کے نیم مردے پر اور ایک کاری ضرب ہے اس کو کتاب کا بدل بنایا اور سمجھاجا رہا ہے،دکھ کی بات یہ ہے کہ جہاں سے اس کا اصل شجرا جڑتا ہے وہاں تو اس نے کتاب خوانی پر کوئی برا اثر نہیں ڈالا لیکن ہمارے ہاں انٹرنیٹ نے کتاب پڑھنے کی روایت کا گلا گھونٹ دیا ہے،وہ تحریکیں جن کی اٹھان بھی دینی لٹریچر کے مطالعے سے ہوئی تھی وہ ترک کتاب کے اسی عذر کی قائل اور مطمئن ہوگئی ہیں خط لکھنا متروک ہوا تو خط کا جواب دینے کے اصول کی پاسداری کون کرتا،خط دوست کا ہوتا یا دشمن کا،کوئی کھولے اور پڑھے بغیر نہیں چھوڑتا تھا مخالفت میں ہوتا یا موافقت میں جواب دینا لازم سمجھا جاتا تھا،لیکن اب فیس بک، ای میل،واٹس ایپ،انسٹا گرام کا دور ہے خط کے جواب کو بوجھ جاننے والے چند منٹ میں جواب ٹائپ کر کے ایک اخلاقی تقاضا آسانی سے پورا کر سکتے ہیں،لیکن ایک میلز وغیرہ کی درجہ بندی رکھی جاتی ہے جو لوگ اس درجہ بندی میں نچلی سطح پرہوتے ہیں ان کی ای میل کو یا تو کھولا ہی نہیں جاتا اور اگر کھلتی ہے تو جواب سے پہلے ہی ڈیلیٹ پر کلک کر کے اس کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے ہمارے بزرگ خط کا جواب لکھنا سلام کا جواب دینے ہی کی مانند و اجب سمجھتے تھے،عید وں کے مواقع پر دوست احباب اور رشتہ داروں کو عید کارڈ بھیجے جاتے تھے،جس میں ایک دسرے سے بڑھ چڑھ کر اور سبقت لینے کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا،سوشل میڈیا کی آمد سے قبل قلمی دوستی بھی ایک محبوب مشغلہ گردانا جاتا تھا مگر نسل نو کو قلمی دوستی نے نا آشنا نظر آتی ہے، اب عام آدمی تو درکنار بڑے بڑے علماء دینی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اسلامی تحریکوں کے زعماء،مدیران جرائد و اخبارات،ٹی وی چینلز کے اینکرز،صحافی،کالم نویس،دانشور،ادیب و شاعر سب ہی اس روایت کے جنازے کو بڑھ بڑھ کر کندھا دے رہے اور اس کو قبر میں اتار کر بڑے شوق سے مٹی ڈال رہے ہیں،گویا مکتوب نویسی ہی نہیں اخلاقی روایت بھی ساتھ دم توڑ رہی ہے،بچپن میں قومی نصاب میں شامل ایک نظم مجھے آج بھی یاد ہے،

دیکھو ڈاکیا ہے،ساتھ اپنے خط لایا ہے
گرمی ہے یا سردی ہے،اس کی ایک ہی وردی ہے
سر پہ خاکی پگڑی ہے،ناک پہ عینک رکھی ہے
کاندھے پہ اک تھیلا ہے جس میں وہ خط رکھتا ہے

عبداللہ نظامی لیہ کے علاقے کوٹ سلطان کے باسی ہیں۔ بچوں کے ادب کے علاوہ صحافت اور سماجی خدمت کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ ادبی سرگرمیوں پر مشتمل جریدہ " تعمیر ادب" باقاعدگی سے شاع کر رہے ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی کئی شاہ کار تحریر یں مختلف رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here