ایزد عزیز —- کیسا انسان بھری بزم سے رخصت ہوا ہے : علی رضا

0
96

نوٹ: یہ مضمون ساہیوال سے تعلق رکھنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر علی رضا کا ہے. یہ کالم مختلف اخبارات میں چند افراد نے فیس بک سے چرا کر اخبارات میں اپنے ناموں سے شائع کروایا ہے. جواں ادب اسے اپنے قارئین کے لیے شائع کر رہا ہے.

دسمبر 2020 کا مہینہ جہاں بہت سی دیگر بلند پایہ علمی اور ادبی شخصیات کے سانحہء ارتحال کا سبب بنا وہاں ساہیوال میں مقیم ممتاز افسانہ نگار اور صاحب اسلوب شاعر ایزد عزیز کی موت کے صدمے سے بھی اہل ادب کو دوچار کر گیا وہ آج صبح 27 دسمبر2020 کو اپنے آبائی شہر ساہیوال میں عارضہء قلب کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔۔ایزد عزیز کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے خود کو ہمہ وقت علم و ادب کی خدمت کے لئے وقف کئے رکھا … وہ نہ صرف ایک صاحب طرز شاعر تھے بلکہ انہوں نے افسانہ نگاری میں بھی اپنا لوہا منوایا ان کی شخصیت بھر پور فنکارانہ صلاحیتوں سے مالامال تھی ماضی میں انہوں نے اپنی ادبی تنظیم حلقہء ارباب قلم ساہیوال پاکستان کے زیر اہتمام بہت سی علمی و ادبی تقاریب کا اہتمام بھی کیا جن میں بہت سی مقتدر علمی و ادبی شخصیات شریک ہوتی رہیں.
ایزد عزیز کا پہلا شعری مجموعہ “غروب شب” 1989 میں شائع ہوا تھا اس مجموعے کی نظموں اور غزلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہتی کہ ان کا تعلق بھی ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے ہے….. اس شعری مجموعے کا دیباچہ مرحوم فارغ بخاری نے لکھا تھا وہ یوں رقم طراز ہیں.” ایزد عزیز کی شاعری پڑھتے ہوئے ایک بے چین روح سے ملاقات ہوگئی” _
ایزد عزیز کا افسانوی مجموعہ “عالم ارواح کی مال روڈ پر” 1997 میں شائع ہوا…. اس مجموعے کے تمام افسانے اپنی مثال آپ ہیں…. خصوصاً ان کے افسانے “رنگ برنگی ڈوری”، “پرانا مکان”، “پٹڑیوں کے درمیان” اور ” کمی” بہترین افسانے ہیں جو اردو ادب کا سرمایا ہیں… شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ ایک مدیر کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنا نام پیدا کیا …. ایزد عزیز نے 2005 میں فیصل آباد سے ایک سہ ماہی اردو ادبی جریدے” سطریں” کا اجراء کیا جس کا پہلا شمارہ 2005 میں عقیدت نمبر کے نام سے شائع ہوا جس میں روایتی مرثیہ اور جدید مرثیہ پر مضامین، فیض احمد فیض اور جوہر نظامی کے جدید مرثیے شائع کئے گئے تھے اس شمارے میں قارئین کو میر انیس کی زندہء جاوید رباعیات بھی پڑھنے کو ملیں…….
اردو ادبی جریدہ” سطریں” کا دوسرا شمارہ حضرت زینب بنت علی علیہ السلام نمبر کے نام سے شائع ہوا…. یہ شمارہ تاریخی اور انقلابی تناظر میں نکالا گیا تھا… اس دیدہ زیب شمارے کو جہاں پاکستان بھر میں پسند کیا گیا وہاں بہت سے ادبی رسائل میں اس پر تبصرے بھی شائع ہوئے…….
ایزد عزیز 1954 کو ساہیوال میں پیدا ہوئے پرائمری سے کالج تک یہیں تعلیم حاصل کی ان کے والد گرامی کیپٹن عبد الحفیظ ایڈووکیٹ کا شمار شہر کے ممتاز وکلاء میں ہوتا تھا وہ برٹش آرمی میں کیپٹن رہے…. قیام پاکستان کے بعد ساہیوال آکر اپنے بڑے بھائی ملک عبد الرشید ایڈووکیٹ کے ساتھ پریکٹس کرنے لگے بعد ازاں کیپٹن ان کے نام کا حصہ بن گیا اور وہ کیپٹن عبد الحفیظ ایڈووکیٹ کے نام سے پکارے جانے لگے….. اردو شعر و ادب کا مستند حوالہ حمید نسیم بھی ایزد عزیز کے حقیقی چچا تھے انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد غالباً 1951 یا 52 میں عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور براڈ کاسٹر کیا وہ ریڈیو پاکستان میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد کراچی سے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے ان کی نظم و نثر کے حوالے سے کئی شاہکار کتب شائع ہوئیں جن میں ان کی خود نوشت سرگزشت “ناممکن کی جستجو” کو علمی اور ادبی حلقوں میں غیر معمولی شہرت اور پزیرائی حاصل ہوئی….. سنٹرل پروڈکشن اسلام آباد کی مرکزی آرکائیو ریڈیو کے آواز خزانہ میں ان کا وسیع ذخیرہ اب بھی موجود ہے……………….. ایزد عزیز بی اے کرنے کے بعد ایم اے جرنلزم کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی لاہور چلے گئے مگر اسی دوران مسلم کمرشل بنک میں آفیسر کے طور پر نوکری مل گئی….. انھوں نے بیس سال تک بنک میں ملازمت کی پھر 1999 میں انگلینڈ چلے گئے وہاں کی ادبی نشستوں اور ادب دوست ماحول میں کافی ادبی کام تخلیق کیا جن میں شاعری اور افسانے دونوں شامل ہیں.
وہ ایک پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد کی چھوٹی ہمشیرہ بلقیس عزیز صاحبہ ان دنوں لالہ موسیٰ میں ہیڈ مسٹرس تھیں جب وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں آتیں تو گھر کے تمام بچوں کو بیٹھا کر پڑھاتیں وہ ایم اے اردو تھیں….. انھوں نے ایزد عزیز کی شخصیت میں چھپی فنکارانہ ذہانت کو دیکھا اور تیسری جماعت ہی میں انھیں شاعری کے بارے میں مفید معلومات فراہم کیں اسی دوران انہوں نے ایزد عزیز کو کچھ آسان وزن بھی سکھائے پھر یہ شوق و ذوق ان کی روح میں اتر گیا جو آج تک جاری و ساری ہے.

جدید اردو شاعروں میں وہ فیض احمد فیض، مجید امجد اور منیر نیازی سے متاثر تھے، صرف غزل گو شعراء میں ظفر اقبال اور اقبال ساجد کو پسند کرتے تھے جب کہ پنجابی شعراء میں علی ارشد میر، قسور بٹ، موہن سنگھ دیوانہ، مظہر ترمذی اور عابد عمیق انھیں پسند تھے…. ان سب شعراء سے وہ اس لئے اپنے دل میں محبت کے جذبات رکھتے تھے کہ یہ سب نظریاتی طور پر ادب و فن سے وابستہ رہے ان کی شاعری اپنے ماحول کی عکاس ہے اس میں بد دیانتی نہیں…… وہ جن ملکی اور غیر ملکی افسانہ نگاروں کی تحریروں سے متاثر رہے اور جن سے انہوں نے افسانہ لکھنا سیکھا ان میں پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ، عصمت چغتائی ، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، آغا بابر، سید قاسم محمود، انتظار حسین، شوکت صدیقی اور ممتاز مفتی کے اسمائے گرامی شامل ہیں…… اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں پنجابی زبان کی افسانہ نگار پروین ملک کے تخلیقی کام کو پسند کرتے تھے ان کا پنجابی افسانہ ” تیرھواں سال” بچوں میں پیدا ہونے والے ناپختہ جنسی شعور پر بہترین تحریر ہے.

وہ تخلیق ادب کے معاملے میں سنجیدگی کے قائل تھے، شاعری اور افسانہ نگاری میں جبرسے کام لینے کے حق میں نہیں تھے…… وہ ایک صاحب مطالعہ ادیب اور دانشور تھے انھوں نے جو کچھ بھی لکھا محنت سے لکھا اسی لئے کم لکھا ان کے پیش نظر ہمیشہ معیار رہا مقدار یا تعداد نہیں… وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ ادبی دھڑے بندیوں سے نام نہیں بنتا بلکہ کام سے شناخت بنتی ہے اور وقت سب سے بڑا نقاد ہے….. ایزد عزیز کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن فی الحال اسی پر اکتفا کرتے ہوئے آخر میں ان کی شاعری سے کچھ منتخب اشعار نذر قارئین ہیں……………….. ۔

کبھی ہوا، کبھی ابر رواں کے سنگ چلوں
کہ سب مناظر فطرت سپرد خامہ کروں
اتاروں آنکھ میں حیرت کے اس تسلسل کو
میں شش جہات میں اڑتا ہوا پرندہ ہوں
وہ اپنے حسن کے پرتو کی اوٹ میں ہے کہیں
میں جس کے نام کی تسبیح دھڑکنوں میں سنوں
ترا خیال کہ رنج و قلق میں روشن ہے
ستارہ یہ مری جاں کے افق میں روشن ہے
یہی دلیل ترے حسن لازوال کی ہے
کہ تازگی ترے رخ کی شفق میں روشن ہے
سوال یہ کہ ہو آزاد فاختہ کیسے
جواب جد وجہد کے سبق میں روشن ہے
طوفاں میں ٹھہرنا چاہتا ہوں
کچھ اور نکھرنا چاہتا ہوں
گہرا ہوں سمندروں کی مانند
میں خود میں اترنا چاہتا ہوں
اے اب حیات تیری خاطر
صحرا میں بکھرنا چاہتا ہوں
ایزد بس ایک نقرئی سکے کے واسطے
درویش زندگی کی دعا دے گیا مجھے

ایزد عزیز پاکستان کا فخر اور اردو شعر و ادب کا سرمایہ افتخار تھے۔۔۔۔۔وہ ساہیوال کے مرکزی قبرستان ماہی شاہ میں آسودہء خاک ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر میں ایک شعر ایزد عزیز کی نذر۔

جس کے جانے سے دل و جان پہ بن آئی ہے
کیسا انسان بھری بزم سے رخصت ہوا ہے

 

علی رضا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ شعر وسخن کے میدان میں قدم رکھتے ہی مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئے۔ نعتﷺ اور غزل میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کا یہ مضمون ان کی فیس بک وال سے مستعار لے کر احباب کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔ علی رضا صدارتی ایوراڈ یافتہ ہیں اور آج کل سرکاری ٹی وی پر بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here