نعیمہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ شادی کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا۔ اپنی شادی شدہ زندگی سے بیزار ہو کر اُس نے اپنے میاں کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا۔
ایک صُبح وہ بھاگتی ہوئی اپنی ماں کے پاس گئی اور بولی، ’’ماں! مَیں اپنے شوہر سے بیزار ہو گئی ہوں۔ اس کی احمقانہ حرکتیں اب مُجھ سے برداشت نہیں ہوتیں۔ مَیں اسے مار دینا چاہتی ہوں لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ مُلک کا قانون مجھے ذِمہ دار ٹھہرائے گا۔ کیا تُم میری مدد کر سکتی ہو؟‘‘
ماں نے جواب دیا، ’’ہاں میری بیٹی! مَیں تمہاری مدد کر سکتی ہوں لیکن اس کے لئے کچھ محنت درکار ہو گی۔‘‘
’’کس قسم کی محنت؟ مَیں اسے نیست و نابود کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ لڑکی تَن کر بولی۔
’’ٹھیک!‘‘ ماں بولی،
’’نمبر ایک۔ پہلے تمہیں اس کے ساتھ صُلح کرنی پڑے گی تاکہ جب وہ مَر جائے تو کوئی تُم پر شک نہ کرے۔
نمبر دو۔ تُمیں اچھی طرح بناؤ سنگھار کرنا پڑے گا تاکہ وہ تمہاری طرف متوجہ ہو۔
نمبر تین۔ تمہیں اس کا بہت خیال رکھنا پڑے گا۔ اسکے ساتھ پیارمحبت کا سلوک کرنا پڑے گا اور اس کی خوب تعریف کرنی ہو گی۔
نمبر چار۔ تمہیں صابر شاکر ہونا پڑے گا۔ اس کی باتیں غور سے سُننی پڑیں گی۔ اسے عِزّت دینی ہو گی۔ اس کی اطاعت کرنی پڑے گی۔
نمبر پانچ۔ کوشش کرو کہ اسے تحفے تحائف دیتی رہو اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی رہو۔
نمبت چھ۔ اس کے آگے کبھی اُونچا نہ بولنا۔ صُلح جُو رہو۔ امن و امان اور باہمی محبت قائم رکھو۔ تاکہ تم پر بالکل کوئی شک نہ کیا جائے جب وہ مر جائے۔
کیا تُم یہ سارے کام کر سکتی ہو؟‘‘
’’ہاں! میَں کر سکتی ہوں۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
’’ٹھیک!‘‘ اپنی پٹاری سے ایک تھیلی نکالتی ماں بولی، ’’یہ پاؤڈر لیتی جاؤ اور روزانہ اسکے کھانے میں ذرا ذرا سا چھڑک دیا کرو۔ یہ زہر اُسے آہستہ آہستہ مار دے گا۔‘‘
ایک مہینہ گُزر گیا تو لڑکی واپس اپنی ماں کے پاس آ موجود ہوئی۔
’’ماں! اپنے میاں کو مارنے کا اب میرا کوئی ارادہ نہیں۔ اس ایک مہینے میں مجھے واقعی اس سے محبت ہو گئی ہے کیونکہ وہ بھی بہت بدل گیا ہے۔ اب وہ بہت پیارا میٹھا شوہر بن گیا ہے جو مَیں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مُجھے اب کیا کرنا چاہیئے تاکہ جو زہر مَیں دے چُکی ہوں وہ اسے نہ مارے؟ پلیز میری مدد کریں!‘‘ لڑکی رو کر بولی۔
ماں نے تسلی دی۔ ’’فکر نہ کرو میری بیٹی! ایک مہینہ پہلے جو پاؤڈر میں نے تمہیں دیا تھا وہ صرف ہلدی پاؤڈر تھا۔ وہ اُسے کبھی نہیں مارے گا۔ حقیقت میں زہر تُم تھیں جو اپنے شوہر کو ٹینشن اور بیزاری سے آہستہ آہستہ مار رہی تھیں۔ جب تُم نے اس سے محبت کرنی، اُسے عِزّت دینی اور اس کی قدر کرنی شروع کر دی توتُم نے اُسے بھی ایک اچھے شوہر میں بدلتے دیکھ لیا۔ حقیقت میں مَرد خراب نہیں ہوتے لیکن اکثر اوقات ہم ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اس پر اُن کا رَدِّعمل انحصار کرتا ہے۔‘‘