تحریر : اظہرعباس
ترجمہ نگاری ایک گہرا فن ہے جو ادب کے جوہر کو لسانی رکاوٹوں سے تجاوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مترجم جو بہت محنت سے کتب کو ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل کرتے ہیں، وہ ثقافتی سفیر کی حیثیت میں کام کرتے ہیں۔ مترجم قارئین کو دوسرے ممالک کے ادبی خزانوں تک رسائی اور تعریف کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ مترجمین علم, خیالات اور ثقافتی اقدار کے پھیلاو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف متن کو لفظ بہ لفظ تبدیل نہیں کرتے بلکہ اصل کام میں سرایت شدہ لطافتوں، باریکیوں اور جذبات کو بھی اسی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس انداز میں مصنف نے لکھا ہوتا ہے۔ مترجم کے لئے ماخذ اور ہدف دونوں زبانوں کے ساتھ ساتھ ان کے اس پاس کے ثقافتی سیاق وسباق کی گہری تفہیم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
مترجم کا ایک اہم کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ تعلیمی ماحول کو سمجھتے ہوے ایسی کتب کو ترجمہ کرے جس سے طلباء اور اسکالرز کو غیر ملکی ادب اور ثقافت کا مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہو۔ مترجم دنیا بھر میں ہوے اہم ادبی، ثقافتی، سماجی اور تحقیقی کام متعدد زبانوں میں محفوظ کرنے کا اہم کام سر انجام دیتا ہے۔ اسے پوری ایمانداری سے تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوے اصل متن کے ساتھ وفاداری نبھانی ہوتی ہے۔ اسے اصل حقائق لوگوں تک پہنچانے ہوتے ہیں ایک اچھا مترجم کبھی اپنے جذبات شامل کر کے اصل متن کا ترجمہ نہیں کرتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ترجمہ شدہ کتب اور تحاریر پڑھنے سے ثقافتی بیداری اور حساسیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس سے لوگوں کو دوسرے معاشروں کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ان کی تعریف کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک مترجم اپنی اصل زبانوں سے کتب کو اپنے ملک کی زبان میں تبدیل کرکے لسانی اور ثقافتی تقسیم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ترجمہ شدہ تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے ثقافتی بیداری اور حساسیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس سے دوسرے معاشروں کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ان کی تعریف کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مترجم ادب کے غیر منقولہ ہیرو ہوتے ہیں جن کے کام سے دنیا کی کہانیوں کو لسانی اور ثقافتی حدود میں سراہا جا سکتا ہے۔ مترجمین کا کام ناگزیر ہوتا ہے۔ ایک عالمی مکالمے کو فروغ دینے اور سرحدوں سے بالا تر ہو کر الفاظ کی طاقت سے انسانیت کو متحد کرنے میں مترجم کا بہت اہم کردار ہو سکتا ہے۔یہ ساری تمہید اب دو کتب کے موصول ہونے پر باندھی گئی ہے جو میرے ہر دلعزیز دوست یسین راجپوت کے برخوردار نعمان راجپوت کے ہاتھوں وصول ہوئی ہیں۔ یہ دونوں کتب پروفیسر سلطان محمود نیازی صاحب کی ترجمہ شدہ کتب ہیں ۔ پروفیسر سلطان محمود نیازی صاحب کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر ان کا جنم 19 اگست 1940 امرتسر میں ہوا اور سات برس کی عمر میں ہجرت کر کے کوئٹہ منتقل ہو گئے تھے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول کوئٹہ سے حاصل کی۔ کتنا حسین اتفاق ہے کہ میں نے بھی میٹرک تک تعلیم اسی عظیم درس گاہ سے حاصل کی ہے۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے اور 1966 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور 1967 میں لیکچرار انگریزی کی حیثیت سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ 1973 میں ترقی پا کر اسٹنٹ پروفیسر بنے۔ ایک اور حسین اتفاق اسی برس میرا بھی کوئٹہ میں جنم ہوا۔ 1975 میں ترقی پا کر پوسٹ گریجویئٹ فیلو شپ حاصل کی اور 1981 میں پروفیسر کے عہدہ پر تعینات ہو گئے۔ اس دوران مختلف انٹر اور ڈگری کالج کے پرنسپل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1989 میں جب ہم میٹرک کر رہے تھے تو وہ جواینٹ ڈائریکٹر کالجز تعینات ہو چکے تھے۔ 1993 میں پروفیسر کا عہدہ پر تعینات ہو چکے تھے۔ 1993 سے 2000 تک منیجنگ ڈائریکٹر بلوچستان ایجوکیشن فاونڈیشن کے طور پر کام کرتے رہے آپ اس فاونڈیشن کے بانی منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ 1993 میں حکومت پاکستان نے انھیں اعزاز فضیلیٹ صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ آپ رہٹائرمنٹ کے بعد پریسٹن یونیورسٹی کوئٹہ کیمپس کے مقامی سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ یونیورسٹی آف انفرمیشن اینڈ ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ منجیمنٹ سائینس (BUTTEMS) میں بطور ڈائریکٹر کمیونیکیشن کے عہدے پر تعینات ہوے۔ پروفیسر ریٹائر نہیں ہوتا یہ جملہ ڈاکٹر عرفان بیگ (تمغہ امتیاز) نے پروفیسر سلطان محمود نیازی کے بارے میں لکھا تھا۔ آج 84 برس کی عمر میں بھی وہ اپنا کام بہت جانفشانی سے کر رہے ہیں۔ یوں تو انھوں نے کئی کتب کا اردو ترجمہ کیا ہے مگر ان کی کتاب (Basic of the English Syntex)
کو بلوچستان ٹیکسٹ بورڈ میں بطور ٹیکسٹ بک پڑھایا جاتا ہے۔ کوئٹہ کے حالات کی خرابی کی وجہ سے 2013 میں پروفیسر صاحب لاہور منتقل ہوگئے اور آج کل لاہور لیڈز یونیورسٹی میں بطور ڈائریکٹر پبلیکیشن خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ کی ایک کتاب ,(The historical referendum 1947 in Balochiatan) کے نام سے بھی شایع ہو چکی ہے۔ یہ مختصر سا تعارف تو تھا بلوچستان کے عظیم پروفیسر مترجم جناب پروفیسر سلطان محمود صاحب کا۔ مگر یہاں اصل ذکر تو ان کی دو عظیم ترجمہ شدہ کتب بول کے سچ زندہ ہے اب تک جو کہ پال فنڈلے کی انگلش کتاب They Dare to Speak Out کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب اسرائیلی لابی کی مزاحمت پر کمر بستہ افراد اور اداروں پر لکھی گئی تھی۔پال فائنڈلی نے ایک ناقابل یقین ، آنکھ کھولنے والی کتاب لکھی ہے جس میں ماہرین تعلیم ، مذہبی شخصیات ، صحافیوں اور سیاسی شخصیات کے خلاف استعمال ہونے والے ہائی پریشر ، غیر اخلاقی ، بہتان کی حکمت عملی پر سوال اٹھایا گیا ہے جو امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کی حد سے زیادہ ملوث ہونے اور معاشی اور فوجی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ تعلیم کے مطلوبہ کنٹرول کے خلاف بولتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا گروپ ہے جس کے ساتھ کوئی بھی گڑبڑ نہیں کرنا چاہتا ۔ اس لابی میں طاقت کے بھوکے شہریوں اور ‘بڑے وگ’ میں پریشان کن مقدار میں اثر پڑتا ہے جو واقعی آپ کو حکومت کو مختلف انداز سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اسرائیل کی لابی اور قومی اور خارجہ امور میں ان کے انتہائی قابل اعتراض معاملات کے خلاف کھڑے ہوکر بات کرنا بنیادی طور پر آپ کی پیشانی پر کیریئر/معاشرتی/معاشی موت کا نشان لگانا ہے ۔ یہ گروہ جس مشکوک معاملات کی ترغیب دیتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے ، چاہے وہ بڑے یا چھوٹے پیمانے پر ہو ، اخلاقیات اور اصولوں کو مجروح کرتا ہے جس کے لئے یہ ملک اور یہودی عقیدہ کھڑا ہے ۔ یہ کتاب اپنے آپ میں ایک تعلیم ہے ۔ اگرچہ پریشان کن ہے ، کیونکہ اس سے آئین کاغذ کے بیکار ٹکڑے کی طرح لگتا ہے جس پر ‘بیوقوف’ لکھا ہوا ہے ، اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ خارجہ اور قومی پالیسی کا ایک پہلو کس طرح کام کرتا ہے تو فائنڈلی کی کتاب بہت فائدہ مند ہے ۔ اور دوسری کتاب ف سے فرنگی، ق سے قتال،ک سے کلاشنکوف
جو کہ کیتھی گینان کی کتاب (IJK) کا ترجمہ ہے۔ جو کہ افغانستان میں مقدس جہاد سے لیکر مقدس دہشت گردی تک پر لکھی گئی تھی۔ یہ دونوں کتب فکشن ہاوس لاہور نے بہت اہتمام سے شایع کی ہیں جس کا انتساب مذہبی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ان ہزاروں پاکستانی فوجیوں اور پولیس والوں کے نام ہے جو 11 ستمبر 2011 سے لے کر اب تک دہشت گردی کی کاروائیوں میں شہید ہو چکے ہیں۔کیتھی گینان پاکستان اور افغانستان کے لئے ایسوسی ائیٹڈ پریس کی خصوصی مراسلہ نگار تھیں جو 1988 سے اس علاقے میں اپنی خدمات دے رہی ہیں اور معروف پاکستانی فن تعمیر نعیم پاشا کی اہلیہ ہیں۔ وہ 6 اپریل 2014 افغانستان کے انتخابات کی کوریج کے لئے ایک جرمن فوٹو گرافر فرنیڈر نگباس کے ساتھ موجود تھیں جب ایک پولیس والے نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی جرمن فوٹو گرافر موقع پر ہی ماری گئیں جبکہ کیتھی گینان شدید زخمی ہوئیں۔پروفیسر سلطان محمود نیازی صاحب نے IJK کا Infidel Jehad and Kalashnikov کا بہترین ترجمہ فرنگی قتال اور کلاشنکوف کیا ہے.