منیر نیازی کی غزل — بیان و بدیع کے تناظر میں — ڈاکٹر سمیرا اعجاز

0
116

منیر نیازی کی غزل روایت اور جدّت کے احساس سے مملو ہے۔ اُنھوں نے جہاں نئے موضوعات و اسالیب سے شاعری کو ہم کنار کیا وہیں فنّی سطح پر بھی تخلیقی قوت عطا کی۔ اُن کی غزل بیان و بدیع کے حسن سے مزین ہونے کی بنا پر ندرتِ فن، تازہ بیانی اور تازہ خیالی کی حامل ہے۔علم بیان کا اہم ستون تشبیہ ہے۔ فن تشبیہ مختلف چیزوں میں مشابہتیں دریافت کرنے کا نام ہے جو شاعری میں توضیح و توجیہہ، لطافت، حُسنِ ادا، شگفتگی اور جدت و ایجاز کی خوبیاں پیدا کرتا ہے۔ منیر نیازی کی غزل میں موجود تشبیہات اُن کی فکری و فنی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اُنھوں نے فکر و فن کے امتزاج سے ایک حسین سنگم کی تخلیق کی ہے۔ اس لیے اُن کی تشبیہات محض تزئین و آرایش کا وسیلہ نہیں بلکہ فکری ڈھانچے کا جزو بن کر سامنے آتی ہیں۔ اس طرح یہ تشبیہات فنی خوبی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ معانی کی توضیح و توجیہہ کا کام بھی کرتی ہیں۔ اُن کے ہاں تشبیہ کی مختلف شکلیں اور صورتیں ملتی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں
اُس کے ہونے سے ہُوا پیدا خیالِ جاں فزا
جیسے اِک مُردہ زمیں میں باغ پیدا ہو گیا
کیا اندھیرے میں روشنی سی رہی
رنگ لب کا شرار سا نکلا

پہلے شعر میں انسان مشبہ اور سانپ مشبہ بہ ہے اور وجہ شبہ دونوں کا مزاحمتِ خارجی پر خزانے کی اوٹ میں روپوش ہوتا ہے۔ انسان بھی روپے کے بل بوتے پر خود کو ناقابلِ تسخیر قوت سمجھتا ہے۔ دوسرے شعر میں محبوب کا ”خیالِ جاں فزا” کی عاشق جاں سوز پر تاثیر بیان کی گئی ہے۔ محبوب کا خیالِ جاں فزا مشبہ ہے اور باغ مشبہ بہ۔ تیسرے شعر میں ”لب” مشبہ اور ”شرار” مشبہ بہ ہے۔
مشبہ اور مشبہ بہ طرفین تشبیہ کہلاتے ہیں۔ یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ حِسّی اور دوسرے عقلی۔ منیر نیازی کی غزل میں ان کی جملہ صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ حسیات میں سے حسِ باصرہ کی کارفرمائی زیادہ نمایاں ہے۔ وہ بصارت کے ذریعے ایسی تمثالیں تراشتے ہیں جن میں تشبیہ کا تعلق ہوتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

نواحِ قریہ ہے سنسان شامِ سرما میں
کسی قدیم زمانے کی سرزمیں کی طرح
دیکھ کر حُسنِ دشت حیراں ہوں
یہ تو منظر دیار سے نکلا
عریاں ہوا ہے ماہ شبِ ابر و باد میں
جیسے سفید روشنی غاروں کے ساتھ ساتھ

پہلے شعر میں سنسان شامِ سرما میں شہر کے منظر کو قدیم زمانے کے کھنڈر سے تشبیہ دی ہے جس کا تعلق بصارت کے ساتھ ہے۔ دوسرے شعر میں حُسنِ دشت اور دیار کے درمیاں تشبیہ کا تعلق ہے۔ صحرا کی ویرانی کو دیار کی ویرانی و بے بسی کے ساتھ ملایا ہے۔ آخری شعر میں باصرہ کی خوب صورت مثال ملتی ہے۔ شب ابر و باد میں چاند کا نکلنا ایسا منظر ہے جو ایک دوسرے منظر کی جانب متوجہ کرتا ہے جس میں غاروں کے ساتھ ساتھ سفید روشنیکا منظر مصور ہے۔ اِن تمام مثالوں میں طرفین تشبیہ کا تعلق دیکھنے کی حِس کے ساتھ ہے۔
طرفین تشبیہ کی ایک شکل عقلی ادراک کی ہے جس میں حواسِ خمسہ کی بجائے عقل کے ذریعے طرفین تشبیہ کا تعین ہوتا ہے۔ منیر نیازی کی غزل میں تشبیہ عقلی کی صورتیں بھی جلوہ گر ہیں اور حِسّی و عقلی دونوں کے امتزاج سے بھی تشبیہ کی مختلف شکلیں جنم لیتی ہیں۔

سحر ہے موت میں منیرؔ جیسے ہے سحر آئینہ
ساری کشش ہے چیز میں اپنی نظیر کے سبب
اثر ہے اُس کی نظر کا مجھ پر
شرابِ گل کے ایاغ جیسا
مثالِ سنگ کھڑا ہے اُسی حسیں کی طرح
مکاں کی شکل بھی دیکھو دل مکیں کی طرح

پہلے شعر میں عقل اور حواس دونوں کا امتزاج ہے۔ موت مشبہ ہے جس کا ادراک عقل و وجدان کے ذریعے ممکن ہے جب کہ ”آئینہ” مشبہ بہ ہے جس کا تعلق حسِ بصارت کے ساتھ ہے۔ دوسرے شعر میں بھی یہی صورت ہے۔ مشبہ محبوب کی نشیلی نظر ہے اور مشبہ بہ شراب کا پیالہ ہے۔ تیسرے شعر میں طرفین تشبیہ حسی ہیں۔ مکیں اور مکاں دونوں سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندہ ہیں جنھیں بے حسی کی بنیاد پر سنگ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔
تشبیہ کی چند قسمیں بہت معروف ہیں جن میں تشبیہ قریب، بعید، مفصل، مجمل، وجدانی اور مرکب یا مماثل وغیرہ شامل ہیں۔ منیر نیازی کی غزل میں تشبیہ کی کئی قسموں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

ملائمت ہے اندھیرے میں اُس کی سانسوں سے
دمک رہی ہیں وہ آنکھیں ہرے نگیں کی طرح
کاٹنا مشکل بہت تھا ہجر کی شب کو منیرؔ
جیسے ساری زندگی غم کی حفاظت میں کٹے
کسی خوشی کے سراغ جیسا
وہ رُخ ہے ہستی کے باغ جیسا
زمیں دُور سے تارہ دکھائی دیتی ہے
رُکا ہے اس پہ قمر چشمِ سیربیں کی طرح

___پہلی مثال میں آنکھوں کو ہرے نگیں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں مشبہ اور مشبہ بہ معروف ہیں اور ذہن آسانی سے تشبیہ کو سمجھ جاتا ہے۔ یہ صورت ”تشبیہ قریب” کہلاتی ہے۔ دوسرا شعر تشبیہ مرکب عقلی کی مثال ہے جس میں شاعر نے ہجر کی کٹھن شب کاٹنے کو ساری زندگی غم کی حفاظت کرنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ زندگی کے غم اور ہجر کی کٹھن شب بہ حیثیت مجموعی مماثل ہیں اور وجہ شبہ بھی مرکب عقلی ہے۔ تیسرا شعر تشبیہ وجدانی کی مثال ہے جس میں تشبیہ کا تعلق وجدان کی بنیاد پر قائم ہے۔ محبوب کے رُخ کو ہستی کے باغ اور خوشی کے سراغ جیسا قرار دیا گیا ہے۔ مشبہ بہ کا ادراک وجدان کے ذریعے ممکن ہے۔ آخری شعر تشبیہ مفصّل کی صورت ہے کہ زمین دُور سے ستارے کی مانند نظر آتی ہے اور اس پر موجود چاند چشمِ سیربیں کی طرح ہے۔ زمین کو تارہ کہنا اور قمر کو چشمِ سیربیں کہنا بہت واضح اور توجیہی ہے۔
منیر کی غزل میں کہیں فن، فکر کی ڈگر سے الگ اپنی راہ نہیں بناتا بلکہ فکر کو مزید نکھارتا اور سنوارتا ہے۔ اُنھوں نے تشبیہ کے حُسن کو فکری رو کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیا ہے کہ کلام حُسن و تاثیر کا مجسم اظہار بن جاتا ہے۔ علم بدیع، بلاغت کی وہ شاخ ہے جس کے ذریعے شاعر لفظی اور معنوی سطح پر زیبائش کلام کر کے ندرت و تازگی پیدا کرتا ہے۔ منیر نیازی کی غزل میں بھی ان عناصرِ جمال کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔ لفظی و معنوی سطح پر صنایع بدایع کا فطری انداز میں اس طرح استعمال کیا گیا ہے جس سے معنوی و لفظی پیچیدگی اور ثقالت کی بجائے خوب صورتی اور تسہیل پیدا ہوتی ہے۔ صنعت تجنیس، مراعاۃ النظیر، حُسنِ تعلیل، لف و نشر، طباق، ترصیع، اشتقاق، شبہ اشتقاق، تلمیح، روالعجز، تعجب، تدبیج، تکرار لفظی، تنسیق الصّفات اور ذوقافیتیں وغیرہ کا استعمال اُن کی غزل میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ذیل میں ان صنعتوں کے استعمال کے حوالے سے منیرنیازی کے شعری رویے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
صنعت لف و نشر سے مراد یہ ہے کہ کلام میں چند چیزوں کا ذکر کیا جائے اور پھر ان چیزوں کے مناسبات کو بغیر تعین کے بیان کیا جائے۔ لف کا لغوی مفہوم لپیٹنا اور نشر کا مطلب ہے پھیلانا۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔ مرتّب، غیرمرتّب اور معکوس الترتّیب۔ اگر ایک لف اور اُس کے بعد ترتیب سے نشر بیان کیا جائے یا ایک لف و نشر بیان کر کے اسی لف و نشر کو لف قرار دے کر اس کا نشر مذکور کریں تو یہ لف و نشر مرتّب ہو گا۔ لف و نشر غیرمرتّب میں مناسبات کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ معکوس الترتیب میں ہر جز کی مناسبت کی ترتیب الٹی ہوتی ہے۔ منیر نیازی کی غزل سے لف و نشر مرتب کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں

”مکاں” کی مناسبت سے ”گھر” اور ”قبر” کی مناسبت سے ”مزار” کی رعایت استعمال ہوئی ہے۔

یہی آنا جانا ہے زندگی، کہیں دوستی کہیں اجنبی
یہی رشتہ کار حیات ہے، کبھی قُرب کا کبھی دُور کا

”آنا جانا” کی رعایت سے ”رشتہ کار حیات”، دوستی کی مناسبت سے ”قرب” اور ”اجنبی” کے لحاظ سے ”دُور” کی رعایت استعمال ہوئی ہے۔
صنعت مراعاۃ النظیر سے مراد کلام میں چند ایسی چیزوں کا تذکرہ ہے جن میں تضاد کے سوا کوئی اور مناسبت ہو۔ مثلاً رات کے ذکر کے ساتھ تاریکی، شمع، چاند اور ستاروں وغیرہ کا ذکر کرنا۔ اس صنعت کو ابتلاف، تلفیق اور مواخات بھی کہتے ہیں۔ منیر نیازی کے ہاں اس صنعت کا استعمال ملاحظہ ہو:

اک اک ورق ہے بابِ زر تری غزل کا اے منیرؔ
جب یہ کتاب ہو چکے جا کے دکھانا تب اُسے
ہری ٹہنیوں کے نگر پر گئے
ہوا کے پرندے شجر پر گئے
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہلے ٹھنڈی ہوائوں میں شجر آہستہ آہستہ

پہلے شعر میں ”ورق”، ”باب” اور ”کتاب ” آپس میں مناسبت رکھتے ہیں۔ دوسرے شعر میں ہری ٹہنیوں، ہوا کے پرندے اور شجر میں رعایت ہے۔ تیسرے شعر میں بادل، خزاں آثار باغ، ٹھنڈی ہوا اور شجر کی صورت میں صنعت مراعاۃ النظیر کی مثال ملتی ہے۔ صنعت تفریق ایسی صنعت ہے جس کے تحت کلام میں ایک نوع کی دو چیزوں میں فرق ظاہر کیا جائے۔ منیر نیازی کی غزل میں اِس صنعت کا استعمال ملاحظہ ہو:

جن عذابوں سے گزرتے ہیں یہاں
اِن عذابوں کی نفی ہے اُس طرف
جو بکھر کر رہ گیا ہے اِس طرف
حُسن کی اِک شکل بھی ہے اُس طرف

درج بالا اشعار میں حیات و عدم کا تقابل کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اگر دو یا زاید چیزوں کو ایک حکم میں جمع کر کے ان میں فرق ظاہر کیا جائے تو یہ صنعت جمع و تفریق کہلاتی ہے۔ منیر نیازی کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

دیوارِ فلک، محرابِ زماں، سب دھوکے آتے جاتے ہوئے
یہ ایک حقیقت ہم پہ کھُلی جب سے وہ کھُلا بن دیکھا ہے

صنعت تجنیس سے مراد کلام میں ایسے دو الفاظ کا استعمال ہے جو تلفظ میں مشابہ مگر معنی میں متغائر ہوں۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔ تجنیس تام، مستونی، مماثل، مرکّب، مرکّب مفروق، مرفوع، خطی، محرّف، مذیّل اور مضارع وغیرہ۔ منیر نیازی کے ہاں تجنیس مذیّل، ناقص و زاید اور محرّف کا استعمال نمایاں ہے۔ تجنیس ناقص و زاید میں دونوں متجانس الفاظ میں سے ایک لفظ میں ایک حرف دوسرے لفظ سے زاید ہوتا ہے۔

لیے پھرا جو مجھے در بدر زمانے میں
خیال مجھ کو دل بے قرار، کس کا تھا

”در” اور ”بدر” کی صورت میں اس صنعت کی نشان دہی ہوتی ہے۔

ابھی ہے وقت چلو چل کے اس کو دیکھ آئیں
نہ جانے شمسِ رواں کب لہو اُگلنے لگے

”چلو” اور ”چل” ایسے متجانس الفاظ ہیں جن میں ایک حرف زاید ہے۔ تجنیس مذیل سے مراد دو متجانس الفاظ کااس طرح استعمال کرنا ہے کہ ایک لفظ کے شروع یا آخر میں ایک سے زاید حروف ہوں۔ منیر نیازی کی غزل میں اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

کچھ اور دل گداز ہوں اس شہر سنگ میں
کچھ اور پُرملال، ہوائے ملال ہو
عجب رنگ رنگیں قبائوں میں تھے
دل و جان جیسے بلائوں میں تھے
جسم کا خون سمٹ آیا تھا ڈری نگاہوں میں
زر کی زردی کھنڈی ہوئی تھی پیلے ماتھوں پر

پہلے شعر میں ”ملال” کی مناسبت سے ”پرملال” استعمال ہوا ہے جس کے ابتدا میں دو حروف زاید ہیں۔ دوسرے شعر میں ”رنگ” اور ”رنگیں” جب کہ تیسرے شعر میں ”زر” اور ”زردی” کی صورت میں تجنیس مذیل کا استعمال نظر آتا ہے۔ تجنیس کی ایک اور قسم تجنیس محرّف بھی ہے۔ جو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب دونوں متجانس الفاظ حروف کی تعداد، ترتیب اور شکل کے اعتبار سے یکساں ہوں لیکن اعراب کے استعمال کے حوالے سے مختلف ہوں۔ منیر نیازی کی غزل میں اس صنعت کا استعمال دیکھیے:

ہے کون دونوں میں ظاہر، ہے کون پردے میں
چھپا ہوا ہے جو نظروں سے دام، تُو ہے کہ میں
ٹھنڈی ہوا چلی تو جلیں مشعلیں ہزار
جو غم نظر میں چمکا تھا اب کہکشاں ہوا

پہلی مثال میں ”میں” اور ”مَیں” بہ ظاہر ایک جیسے ہیں لیکن اعراب کے حوالے سے بالکل جدا حیثیت کے مالک ہیں۔ دوسری مثال میں ”ہَوا” اور ”ہُوا” دیکھنے میں یکساں مگر اعراب کے لحاظ سے جدا ہیں۔
صنعت طباق یا تضاد ایسی صنعت ہے جس میں شاعر کلام میں ایسے الفاظ لاتا ہے جو باہم متضاد و متقابل ہوں۔ یہ متضاد الفاظ اسم، فعل یا حرف کسی بھی شکل میں ہوں اس صنعت کو مطابقت، تکانو یا تطبیق بھی کہتے ہیں۔

سوادِ شامِ سفر ہے جلا جلا سا منیرؔ
خوشی کے ساتھ عجب سا ملال بھی ہے مجھے
اے منیر! آزاد ہو اس سحر یک رنگی سے تو
ہو گئے سب زہر یکساں، سب نباتیں ایک سی

درج بالا اشعار میں ”خوشی” اور ”ملال”، ”زہر” اور ”نباتیں” متضاد کیفیات کے حامل ہیں۔ تضاد کی کیفیت دو طریقوں سے پیدا ہوتی ہے جن کی بنا پر اس صنعت کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ تضادِ ایجابی اور سلبی۔ تضادِ ایجابی اُس وقت جنم لیتی ہے جب کلام میں ایسے الفاظ کا استعمال ہو جو ایک دوسرے کی ضد ہوں۔ مثلاً دن، رات اور صبح، شام وغیرہ۔ منیر نیازی کے ہاں اس کی مثالیں ملاحظہ ہوں:

قدیم قریوں میں موجود تُو خدائے قدیم
جدید شہروں میں بھی تجھ کو رونما دیکھا
یہ جبر مرگِ مسلسل ہی زندگی ہے منیرؔ
جہاں میں اس پہ کبھی اختیار کس کا تھا

پہلے شعر میں ”قدیم” اور ”جدید” متضاد الفاظ ہیں۔ دوسرے شعر میں ”جبر” کا متضاد ”اختیار” اور ”مرگ” کا متضاد ”زندگی” ہے۔ اس طرح صنعت تضاد ایجابی ظاہر ہوتی ہے۔ تضاد سلبی میں حروفِ نفی کے ذریعے تضاد کی صورت پیدا کی جاتی ہے۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہو:

نگاہِ آئینہ معلوم، عکس نامعلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو

اس شعر میں لفظ ”معلوم” کے ساتھ حرفِ نفی ”نہ” کے استعمال سے صنعت تضادِ سلبی پیدا ہوئی ہے۔
صنعت تدبیج کو بھی طباق ہی کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔ کلام میں رنگوں کا ذکر ایہام و کنایے کے پیرائے میں کرنا صنعت تدبیج کہلاتا ہے۔ منیر نیازی کی غزل میں رنگ جہانِ معانی کے در وا کرتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

بہنے لگی ہے ندی اک سُرخ رنگ مے کی
اک شوخ کے لبوں کا لعلیں ایاغ چمکا
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے

پہلی مثال میں سُرخ رنگ رومان و شیفتگی کی علامت ہے جب کہ دوسرے شعر میں صحر ا کی تجسیم کی گئی ہے جو اُس کی صفات سے متعلق ہے۔ زرد رنگ عدم حیات اور لال رنگ تخریب و فنا کی علامت ہے۔
صنعت حُسنِ تعلیل علم بدیع کی ایسی صنعت ہے جو کلام میں ندرت اور تازگی پیدا کرتی ہے۔ کسی امر کے لیے ایسی وجہ بیان کرنا جو درحقیقت اس کی وجہ نہ ہو، حقیقی وجہ کچھ اور ہو یا وجہ نامعلوم ہو تو یہ صنعت پیدا ہوتی ہے۔ منیر نیازی نے بھی اس کا استعمال بہ خوبی کیا ہے جس سے لطیف پہلو جنم لیتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

ہے آنکھ سرخ اُس لب لعلیں کے عکس سے
دل خوں ہے اُس کی شعلہ بیانی کو دیکھ کر
وفور نشہ سے رنگت سیاہ سی ہے مری
جلا ہوں میں بھی عجب چشمِ سُرمہ سا کے لیے

پہلے شعر میں عاشق کی سرخ آنکھوں اور دل خون ہونے کے قصے کو محبوب کے لب ِ لعلیں کے عکس اور شعلہ بیانی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ لب ِ لعلیں کے عکس سے آنکھوں کا سرخ ہونا محال ہے۔ شاعر نے ایسا شعری قرینہ رکھا ہے جو نزاکتِ خیال اور ندرت بیان کا حامل ہے۔ دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری سیاہ رنگت محبوب کی چشمِ سُرمہ کی وجہ سے ہے۔ سُرمے کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور محبوب کی سُرمہ لگی آنکھیں عاشق کو ایسا جلاتی ہیں کہ وفور نشہ سے عاشق کی رنگت سیاہ ہو جاتی ہے۔ رنگت سیاہ ہونے کی یہ وجہ شاعرانہ خیال پر مبنی ہے۔ اس میں حقیقت کا کوئی علاقہ نہیں۔
صنعت اشتقاق کے تحت کلام میں ایسے دو الفاظ لائے جاتے ہیں جن کا ماخذ یکساں ہو اور یہ بااعتبارمعنی بھی متفق ہوں۔ مثلاً گل، گلزار، حق، تحقیق وغیرہ۔ منیر نیازی کے ہاں بھی اس صنعت کا استعمال ملتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:

میں اکیلا اور سفر کی شام رنگوں میں ڈھلی
پھر یہ منظر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا
وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اُس کی مہک
شمع دل بجھ سی گئی رنگ حنا کے سامنے

پہلے شعر میں ”منظر” اور ”نظروں” کا ماخذ ایک ہے جس سے یہ لفظ بنے، دوسرے شعر میں لفظ ”رنگیلا” اور ”رنگ” کا مخرج بھی یکساں ہے۔
صنعت ِاشتقاق میں تو الفاظِ مستعملہ ایک ماخذ سے مربوط ہوتے ہیں جب کہ شبہ اشتقاق میں الفاظ بہ ظاہر ایک ماخذ سے مشتق معلوم ہوتے ہے لیکن دراصل اُن کا ماخذ الگ الگ ہوتا ہے۔ منیر نیازی کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

عمر کے ساتھ عجیب سا بن جاتا ہے آدمی
حالت دیکھ کے دُکھ ہوا، آج اُس پری جمال کی

لفظ ”دیکھ” اور ”دُکھ” بہ لحاظ ماخذ یکساں معلوم ہوتے ہیں لیکن دونوں کا اشتقاق مختلف ہے۔
کلام میں اعداد کا ذکر کرنا صنعت سیاقۃ الاعداد کہلاتا ہے۔ منیر نیازی نے بھی اِس صنعت کا التزام کیا ہے مثلاً:

ہے ایک اور بھی صورت کہیں مری ہی طرح
اک اور شہر بھی ہے قریۂ صدا کے سوا
روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیائوں کی چار سُو چلا دوں گا
کوئی صورت نہیں ہے اس جیسی
اس کو دیکھو ہزار میں بیٹھا

پہلے شعر میں ”ایک” اور ”اک”، دوسرے شعر میں ”اک” اور ”چار”، تیسرے شعر میں ”ہزار” کی صورت میں صنعت سیاقۃ الاعداد کی نشان دہی ہوتی ہے۔
شعر کے پہلے مصرعے کے شروع(صدر) میں آنے والا لفظ اگر مصرع ثانی کے جزو آخر(عجز) میں آئے تو وہ صنعت روالعجز علی الصدر ہو گی۔ منیر نیازی کی غزل میں اِس کا استعمال ملاحظہ ہو:

دیکھیے اب کے برس کیا گل کھلاتی ہے بہار
کتنی شدت سے مہکتا ہے گلستاں دیکھیے
ہے کون کس لیے پریشاں
پتہ تو دے اصل بات کیا ہے

پہلے شعر میں مصرع اوّل لفظ ”دیکھیے” سے شروع ہوا ہے اور مصرع ثانی بھی اسی لفظ پر مختتم ہے۔ آخری دو اشعار ایک ہی غزل کے مسلسل اشعار ہیں اور دونوں اشعار میں یہ صورتِ حال دیکھی جا سکتی ہے۔
صنعت روالعجز علی الابتدا میں صورتِ حال کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ شعر کے دوسرے مصرع کے آخر میں وہی لفظ لایا جاتا ہے جو اس کے شروع میں آیا ہو۔ یعنی مصرع ثانی کی ابتدا اور انجام میں ایک ہی لفظ کا آنا اِس صنعت کو پیدا کرتا ہے۔ منیر نیازی کی غزل سے ایک شعر بہ طور مثال ملاحظہ ہو:

سفر میں دھوپ کا منظر تھا اور سائے کا اور
مِلا جو مہر میں مجھ کو سحاب میں نہ ملا

مصرع ثانی لفظ ”مِلا” سے شروع ہوا ہے اور اسی لفظ پر ختم بھی ہوا ہے۔
صنعت ترصیع کا تعلق موسیقیت اور ترنم کے ساتھ ہے۔ ایک موزوں مصرعے کے مقابل اس طریقے سے دوسرا مصرع لایا جائے کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ اور دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ ہم قافیہ ہوں۔ اگر ایک مصرعے میں ہم قافیہ الفاظ آئیں تو بھی صنعت ترصیع کا التزام ہو گا۔ موسیقیت، ترنم اور روانی منیر کی غزل کا نمایاں جزو ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:

کئی رنگ پیدا ہوئے برق سے
کئی عکس دیوار و در پر گئے
وہی نُور کی بارشیں کاخ و کُو پر
وہی جھٹپٹے کا سماں میرے دل میں
کچھ تو اُس کے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی اُس کو سُریلا کر گئی

صنعت ذو قافیتین اور ذوالقوافی سے مراد ایک شعر میں دو سے زیادہ قافیے لانا ہے، اس سے کلام میں موسیقیت کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ منیر نیازی کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

اس شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے
اس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے

موسیقیت اور ترنم کے حوالے سے تکرار لفظی کا التزام بھی قابلِ ذکر ہے۔ لفظوں کی تکرار سے بھی روانی اور ترنم کی کیفیت جنم لیتی ہے۔ منیر نیازی کی غزلوں میں اس کا استعمال بہت نمایاں ہے۔ اُن کی غزلوں کی ردیف بھی بعض اوقات اسی اصول پر ہیں۔ مثلاً ردیف ”نئے نئے” کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

ابر و ہوا نئے نئے، شمس و قمر نئے نئے
اہلِ نظر نئے نئے، اہلِ خبر نئے نئے

اسی طرح ردیف ”آہستہ آہستہ” کی غزل کا شعر ملاحظہ ہو:

اُگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صدائوں سے نگر آہستہ آہستہ

جستجو، دریافت، حیرانی اور استفہام منیر نیازی کی شاعری کے بنیادی عناصر ہیں۔ حیرت اور تعجب کا یہ عمل اُن کی غزل میں صنعت تعجب کی نشان دہی کرتا ہے۔ کھوج لگانے اور استعجاب کی کیفیت ان اشعار میں ملاحظہ ہو:

فراقِ خورشید و ماہ کیوں ہے
یہ ان کا اور میرا ساتھ کیوں ہے
فغاں ہے کس کے لیے دلوں میں
خروشِ دریائے ذات کیا ہے
فلک ہے کیوں قیدِ مستقل میں
زمیں پہ حرفِ نجات کیا ہے

علم بدیع کی اصطلاح میں صنعت مبالغہ سے مراد کسی چیز کی مدح یا مذمت کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے کہ جو عام حالات میں اس کی تعریف یا مذمت کا اس حد تک پہنچنا محال ہو یا بعید از قیاس ہو۔ منیر نیازی کی شاعری میں تخیل کی کارفرمائی بہت نمایاں ہے
منیر نیازی کے ہاں صنایع لفظی و معنوی کا استعمال بہت دل کش ہے جو شاعر کے گہرے فنی شعور کی دلیل ہے۔ اس التزام سے اُن کے کلام میں دل چسپی، رفعتِ تخیل، ندرتِ خیال، لطافت، اچھوتا پن اور جدت پیدا ہوتی ہے۔

ڈاکٹر سمیرا اعجاز اردو ادب کے دور حاضر کے محققین اور ناقدین کی اس کھیپ سے ہیں جنھوں نے روایتی تحقیق و تنقید کی بجائے سائنسی طریقہ ہائے علم کو اپنایا اور مشکل پسندی کی بجائے دقیق موضوعات سہہل انداز میں تشنگان علم کی نذر کر کے علمی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ منیر نیازی کی نثری جہات پر ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اس امر کا بیّن ثبوت ہے۔ سمیر ااعجاز سرگودھا یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے چکی ہیں اور آج کل یونیورسٹی آف اوکاڑہ میں شعبہ اردو کی ناظم کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ادبی اور تحقیقی موضوعات پر ان کی کئی تصنیفات منظر عام پر آ چکی ہیں۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here