سرخ کھنکتی چوڑیاں —— صائمہ امتیاز
کھلے آسماں پر پرندوں کی چہچاہٹ کم تھی گرمی سے بچنے کے لیے پرندے بھی درختوں پر آ بیٹھے تھے
پر فریال احمد تپتی دوپہر میں سکول سے واپسی پر اپنے دفتر کی جانب گامزن تھی ۔
کہتے ہیں کہ رزق کے لیے یا شہرت کے لیے تگ و دو کرنا پڑتا ہے ،
سفر بھی کرنا پڑتا ہے اور مصیبتیں و صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔۔
لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ تھکا دینے والے سفر فقط اپنی خواہشات اور مقاصد کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں ۔
اپنے پیروں کو بیڑیوں کی صورت پرائی راہگزر اور اجنبی سفر میں کبھی کبھی پیاروں کے واسطے بھی ڈالنا پڑتا ہے ۔
پیدل چلنے کی وجہ سے پسینے سے شرابور، سکول میں چھے گھنٹے پڑھانے کے بعد ،دماغ پر اتری تھکن کو دور کرنے کے لیے وہ ایک گھنے سائے والے درخت کے نیچے کھڑی ہو کر درخت پر بیٹھے پرندوں کو بغور دیکھنے لگی اور سوچنے لگی کیا پرندے بھی اس کی طرح رزق کی تلاش میں اپنے اپنے گھروں سے نکلے ہوئے تھےکیا ان کی منزل بھی دور تھی یا صرف وہ ہی اس سفر کی مسافر تھی؟
کچھ اوباش لوگوں نےاسے برقع میں ہونے کے باوجود اپنی بے حیا نظروں کی تسکین کے لیے سڑک کے اخیرتک دیکھتے جانے کا فر یضہ نبھایا۔
فریال نے لمبی سانس لی اور اپنے ارد گرد کی خوبصورت زندگی کو دیکھنے لگی ۔۔۔
سامنے دوکان میں پڑی سرخ چوڑیاں اسے اپنی طرف مائل کر رہی تھیں اک لمحے کے لیے وہ سب بھول کر چوڑیوں کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔
پھر اچانک مرحومہ اماں کی باتیں یاد آنے لگیں جب وہ سرخ چوڑیوں کی ضد کرتی تھی اور
“اماں کہتی تھی کہ سرخ چوڑیاں تو سہاگن کی نشانی ہوتی ہے ”
اماں کی بات ذہن میں آتے ہی اس کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔
اس کے لیے تو زندگی بس کام کا نام تھی یا کفالت ، بھاگنے، دوڑنے ،اذیت ،تکلیف، بے بسی ، سڑکوں کی خاک چھاننا، نت نئے اوباش لوگوں کااسے تاڑنا، اذیت ناک جملے کسنا، جملوں کو سننا ،
اپنی خواہشوں کو بھائیوں کی خوشی کے لیے دفنانا یہی تو زندگی تھی ۔۔۔۔۔۔
پسینہ زرا خشک ہوا تو وہ بلا تامل بس اڈے کی طرف چلنے لگی وہاں پہنچتے ہی اسے معلوم ہوا کہ اس کے دفتر کی بس نکل چکی وہ پیدل ہی دفتر کے لیے نکل پڑی ۔۔۔۔۔
مخمور آنکھوں میں مستقبل کے حسین خواب لیے وہ دفتر کی جانب گامزن تھی وہ سوچ رہی تھی کچھ سالوں کی بات ہے پھر بھائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے تب وہ اپنے دماغ کی تھکاوٹ اتارے گی تب ان کاموں کا جھنجٹ نہیں ہوگا وہ ایک عزم کے ساتھ دفتر پہنچی ۔اور ایک مصنوئی مسکراہٹ کے ساتھ سب کو سلام کیا اور اپنے میز تک پہنچتے ہی اس نے مصنوئی مسکرا ہٹ کو سمیٹ کر کاغذات کے انبار کو دیکھتے ہی سوچا کہ ایک اور تھکا دینےوالے کام کا آغاز ہے ابھی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کام میں بھی دھیان چھوٹے بھائیوں کی طرف تھا کہ کیسے انہیں بہتر مستقبل مہیا کیا جائے۔۔۔۔جوانی بھائیوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں کرتے ہوئے ہی ڈھل رہی تھی ۔۔۔
********
کئی سالوں بعد بالوں میں اتری چاندی لیے دارالامان میں بیٹھی فریال کھنکتی سرخ چوڑیوں ،سرخ جوڑے کو پہنے بغیر یہاں تک پہنچ چکی تھی
۔ساتھ بیٹھی اس جیسی نہ جانے کتنی ہی عورتیں تھیں کسی کو ان کی اولاد اس مکان تک چھوڑ گئی،کسی کو سسرال والے بیوہ ہونے کے بعد ، کچھ بانجھ پن کے سبب غرض یہ کہ سب میں کہیں نہ کہیں سہاگن والی بات رہی تھی۔پر اس پر نہ لال گوٹہ کناری والا دوپٹہ اوڑھایا گیا نہ سرخ کھنکتی چوڑیاں پہنائیں گئیں۔ہاں اس کی ڈولی اٹھی تھی باون سال کی عمر میں۔۔۔۔
لاڈلے بھائی زبردستی کہار بن کر پالکی میں بیٹھا کر یہاں چھوڑ گئے۔۔۔ مخمور آنکھیں دھندلا گئیں جنہوں نے کبھی بیش بہا حسین خواب دیکھے تھے اب واجب المحب انکھیں باتیں نہیں کرتی تھیں ۔۔۔۔۔
گردش دوراں سے گزرتے ہوئے اب بس وہ گدڑی پہنے اپنے مکدر ،کہن صندوق کو کھولتی تھی جس میں سے ہلکی ہلکی بوے سمن آتی تھی چند جوڑوں کے نیچے سے سرخ چوڑیاں نکال کردیکھ کر واپس رکھی دیتی تھی اور مور کے پنکھ جو محبت کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔روزانہ وہ اپنی میراث دیکھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
میراث جو اسے اپنے بھائیوں کی کفالت کے بدلے میں ابنائے زمانہ سے ملی ۔بھائی ثابت کر گئے کہ” واقعی عورت فطرتآ ماں ہوتی ہے “