ساختیات ،پسِ ساختیات اور ہم۔۔۔نادیہ عنبر لودھی

0
108

اردو ادب میں نئے تنقیدی رجحانات وقت کی ضرورت تو ہیں لیکن یہ اردو ادب کے طالب علموں تک محدود ہیں -اردو ایک ملواں زبان ہے- یہ زبان مسلمانوں کی ساختہ ہے – لیکن آج یہ تیزی سے زوال پذیر ہے -اس زبان میں دنیا کی کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں یہ ایک ملغوبہ زبان ہے – آج اس زبان میں ہند یورپی خاندان کی مقبول ترین زبان انگریزی کے الفاظ اس قدر اہمیت حاصل کر گئے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب اردو زبان انگریزی کی ایک ذیلی زبان کے طور پر جانی جاۓ گی –
آج اردو پاکستان کی دفتری اور قومی زبان ہے – یہ ہندوستان کے چھ صوبوں کی دفتری زبان ہے – پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود یہ مکمل طور پر دفتری زبان نہیں ہے – انگریزی میں دفتروں میں تحریری کام کیا جاتا ہے – انگریزی فخریہ طور پر بولی جاتی ہے – گرائمر اسکولوں نے اس انحطاط کو مزید تقویت پہنچائی ہے –
اردو کا یہ زوال ساختیات کا زوال نہیں ہے ،ساختیات کیا ہے -لفظوں کے درمیان باہمی تعامل اور ہر لفظ کی مکمل ساخت کے مخصوص انداز کی پہچان کا مطالعہ ساختیات کہلاتا ہے – صوتیے کو کسی لفظ کی صوتی کیفیت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن لسانیات میں لفظ کے اندر موجود ساختیہ کو معلوم کیا جاتا ہے اور ساختی تبدیلی پر توجہ دی جاتی ہے۔ساختیہ کی رکنی کیفیت کو بدل دینے کا نام ہی ساختی تبدیلی ہے .یہ تبدیلی کیسے کہاں اور کیوں واقع ہوئی، اصل بحث یہ ہے زوال پذیر زبان بھی مسلسل ساختی تبدیلی سے گزرتی رہتی ہے –پس ساختیات میں متن کے آخری معنی کی تلاش کی جاتی ہے۔
پس ساختیات کیا ہے ؟ایک ایسا عمل جس میں پیش کیے گئے متن میں کثیر معنویت اور مرکز گریزگی کا طریقہ اختیار کیا جاۓ –پس ساختیات میں کسی بھی متن کو آزادانہ طور پر پڑ ھا جاتا ہے اور ادب کو لامحدود سطح پر پیش کیا جاتا ہے – یعنی متن اپنے لکھے ہوۓ معانی سے آگے کے معانی بھی بیان کرتا ہے اور ایسے معانی کی تلاش ہی پس ِساختیات کا مقصود ہے ۔ یعنی متن میں پرت در پرت معانی تلاش کرنا –لہذا اس کے مطابق کسی بھی متن کو بند متن نہیں سمجھا جاتا – یہ ہی وجہ ہے کہ” ٹی -ایس -ایلیٹ “جو کہ مغربی نقاد ہے ساختیاتی نقادوں کو لیموں نچوڑوں کا دبستان قرار دیتا ہے –دیکھا جاۓ تو یہ درست بھی ہے آخری قطرہ تک رسائی یعنی آخری معانی تک رسائی کی کوشش کی جاتی ہے –
زبان متغیر ہے – یہ ہر لمحہ تبدیل ہورہی ہے –اس میں نئے الفاظ بن رہے ہیں – ساختی تبدلیاں ہورہی ہیں – لفظ نثر اور نظم دونوں کا موضوع ہے – الفاظ سے جملے بنتے ہیں – ہر زبان کی گرائمر کے قوانین ان جملوں کی ترتیب مرتب کرتی ہے – ساختیات ان تبدیلیوں کا جائزہ لیتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ میں یعنی زبان میں مرتب ہوتی ہیں –ساختیات کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا کسی زبان کے انہدام کی صورت میں کوئی نئی زبان وجود میں آئے گی جس میں اس علاقے کے باشندے اپنا ما فی الضمیر بیان کریں گےاور ساختی تبدیلیوں کا یہ عمل جاری و ساری رہے گا –ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی مشہور زمانہ تصنیف “ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات اس ضمن کی نمائندہ تصنیف ہے –ہندوستان کے حوالے سے اس میں کافی مواد ہے –
اب ساختیات اور پس ِساختیات کا ہماری زبان اردو سےموجودہ تعلق کس مقام پر کھڑا ہے – اس سوال کا جواب بہت مایوس کُن ہے اردو زبان ہی صرف زوال پذیر نہیں ہے اردو ادب کی اصناف افسانہ اور شاعری دونوں زوال پذیر ہیں کوئی نیا افسانہ نگار دکھائی نہیں دیتا – شاعری کا معیار مشاعروں کی صورت حال سے دکھائی دے رہا ہے جدت کے نام پر بدعت پر زور ہے -انگریزی الفاظ کی بھر مار ہے –کلاسیکی استادوں کا تتبع نظر نہیں آتا – شاعروں نے اپنا ہی جہان نو آباد کرلیا ہے۔اس نظامِ شمسی کے سورج بھی وہ خود ہیں اور ستارے بھی –اردو مضمون سے طالب علم دور بھاگتے ہیں –
ادبی میلوں کے نام پر دوستیاں نبھائی جاتی ہیں -تعلق اور سفارش پر ایوارڈ دیے جاتے ہیں -لمبے نوٹ کمائے جاتے ہیں اپنوں کو نوازا جاتا ہے – اردو زبان کی بساط لپیٹنے والے بھی اردو کے متوالے ہی ہیں یہ ہی لنکا ڈھا ئیں گے انشااللہ۔۔۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here