’’عنبر بیٹا! اب سو جائو، بہت رات ہو گئی ہے۔ـ‘‘امی نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔
جی امی۔۔۔! بس کچھ ہی سوالات دہرانے والے رہ گئے ہیں وہ دہرالوں کل ٹیسٹ ہے میرا۔میں نے جمائی لیتے ہوئے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ سوئیاں تیزی سے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے سوا دو بجے کا اعلان کر رہی تھیں۔
صبح منہ اندھیرے کی جاگی ہوئی ہو۔کم از کم نیند تو پوری کر لیا کرو تا کہ تندرست رہ سکو۔امی جان نے پیار بھرے انداز میں ڈانٹا ۔
جی امی جان! اس نے جواب دیا اور جلدی سے اپنی نظریں دوبارہ کتاب پر جما دیں۔
اللہ تمھیں تمھاری محنت کا صلہ دے۔امی جان نے اسے دوبارہ پڑھائی میں مشغول دیکھ کر دعا دی اور نم آنکھوں سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
جب سے عنبر کے ابو کا انتقال ہو اتھا گھر کے مکینوں پر ایک خاموشی سی چھا گئی تھی۔سب ایک دوسرے کا خیال تو رکھتے تھے مگر وہ پہلی سی ہلچل، ہلا گلا اور کھیل کودگویا ایک خواب بن کر رہ گئے تھے۔
بڑے بھیا تو ویسے ہی باہر جانے کی تیاریوں میں تھے۔گھر کا خرچ اور انتطام سنبھالنے والے تو ابو ہی تھے۔ابو سے رقم لے کر ہی انہوں نے باہر جانے کا بندوبست کیا تھا مگر ان کے جانے سے پہلے ہی ابو شہر میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔ظہر کی نماز ادا کر کے وہ مسجد سے نکل کر دروازے تک ہی آئے تھے کہ ایک خود کش حملہ آور درجنوں انسانوں کی زندگیوں سے کھیل کر خود بھی جہنم واصل ہو گیا۔ اس واقعے میں کئی افراد زخمی ہوئے اور ابراہیم صاحب(عنبر کے والد) سمیت 12 افراد دنیا سے رخصت ہو گئے۔بس اس دن سے گھر کی دنیا اندھیر ہو گئی۔
نجانے کسی کو مارنے والے انسان نہیں ہو تے یا انسان ہو کر جذبات اور انسانیت سے محروم ہوتے ہیں۔ایک شخص کے چلے جانے سے گھر کی ساری فضا تبدیل ہو گئی تھی۔عنبر کو یوں لگتا تھا جیسے ساری خوشیاں اور رحمتیں ابو کے دم سے تھیں جو ان کے جاتے ہی روٹھ گئی تھیں۔عنبر تو ہر چیز سے بیگانا ہو گئی تھی۔کاش ابو کی جگہ وہ۔۔۔۔ بس وہ ہر وقت یہی سوچتی۔ہر وقت اداس اور کھوئے ہوئے رہنا اس کی عادت بن گئی تھی۔ایک دن وہ روتے روتے سوئی تو اس نے اپنے ابو کو خواب میں دیکھا۔
میں نے تمھیں یہ سب تو نہیں سکھایا تھا بیٹا! اب کے لہجے میں ناراضی کا عنصر نمایاں تھا۔
کیا ہوا ابو جی۔۔۔۔؟ عنبر نے ابو کے کندھے پر سر رکھنے کے لیے قدم بڑھاتے ہوئے پوچھا تو ابو ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔
تم ہر وقت روتی ہو۔۔ اداس رہتی ہو۔۔۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں یونہی نہیں بھیجا۔غور کرو بھیجنے والے کی کیا حکمت تھی جو اس نے تمھیں بنایا۔رب نے جب تک مجھ سے کام لینا تھا مجھے زندگی دی اور جو کام تم سے لینا ہے جب تک وہ نہیں ہو جاتا وہ تمھیں اپنے پاس نہیں بلائے گا۔ابو کے لہجے میں رقت پیدا ہو گئی تھی۔میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا ابو جی! میں کچھ نہیں کر پاتی۔۔۔ فرطِ جذبات سے عنبر کا دل بھر آیا۔
بس پھر میری تڑپتی رہے گی۔مجھے کبھی چین نہیں آئے گا۔ تم روتی رہو۔۔۔کچھ نہ کرو تم۔۔۔۔
ابو جی۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔ میں کیا کروں ابو جی۔۔۔مم۔۔۔۔ ابو جی اب اس کے پاس آگئے تھے اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہ رہے تھے۔’’محنت کرو بیٹا، آگے بڑھو، اپنی منزل تلاش کرو۔اپنے ارد گر د نظر دوڑائو،دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو کم وسائل اور برے حالات میں تم سے آگے نکل چکے ہیں ۔سوچو، کتنے باہمت ہیں وہ لوگ۔۔۔۔
مگر ابو آپ آ جائیں ناں۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔
نیند میں کس سے باتیں کر رہی ہو بیٹا؟ اسے امی کی آواز سنائی دی ۔
امی ابو آئے تھے۔میں نے ابو کو دیکھا ہے خواب میں۔اسے اب تک ابو کے شفقت بھرے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوتا رہا۔
جانے والے لوٹ کر نہیں آیا کرتے ۔۔۔یہ کہتے ہوئے امی کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
امی! جانے والے واقعی لوٹ کر نہیں آتے ۔ہم سب نے جانا ہے۔ اس نے امی کو دلاسا دیا۔آج کایا ہی پلٹ گئی تھی کود رونے والی اپنی ماں کو حوصلہ دے رہی تھی۔
بس وہ دن اور آج کا دن عنبر کی دنیا ایک بار پھر بدل گئی۔اب اداسی کی جگہ سنجیدگی اور لگن نے لے لی تھی۔
بھائی جان بیرون ملک جانے کے بعد دو بار کچھ رقم بھیج چکے تھے۔ وہاں ان کے اپنے اخراجات ہی اتنے تھے کہ ان کے لیے رقم بھیجنا مشکل ہو رہا تھا۔امی
نے انھیں کہ دیا تھا کہ کہ وہ صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دیں وہ گھر چلانے کے لیے کچھ نہ کچھ کر لیں گی۔ بھیا پڑھائی میں کیا گم ہوئے ان سے رابطہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا۔عنبر بھی اب مصروف ہو گئی تھی۔کالج سے واپسی پر وہ ایک ٹیوشن اکیڈمی میں پڑھاتی ۔گھر آ کر اپنی امی کا ہاتھ بٹاتی اور شام کو محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی۔گھر کا نظام چلنے لگا۔اب ابا جان اسے خواب میں نظر آتے تو ان کا چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے تھے۔بڑے بھیا اب مہینوں بعد ہی رابطہ کرتے تھے۔امی جان ان کی وجہ سے بہت پریشان تھیں۔
٭٭٭٭
گھر میں ابو کے جانے کے بعد پہلا دن تھا جب عنبر کو یوں لگا کہ گھر کی خوشیاں لوٹ آئی ہیں۔عنبر کا ایم۔ایس سی کا رزلٹ آیا تھا ۔اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔امی جان خوشی سے نہال ہو رہی تھیں۔محلے والے مبارکباد دینے کے لیے آرہے تھے۔
عنبر بیٹا!کسی کو بھیج کر مٹھائی منگوائو۔آج تمھارے ابا جان کی روح بہت خوش ہوگی۔ امی نے آواز لگائی۔
جی امی! یہ کہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھی کہ کسی بچے کو مٹھائی لانے کا کہے ۔حیرت کا ایک پہاڑ اس پر ٹوٹ پڑا۔بڑے بھیا بڑی سی گاڑی سے اتر کر گھر میں داخل ہو رہے تھے۔
امی۔۔۔۔۔۔! اس نے تیزی سے پکارا۔ وہ حیرت اور خوشی سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچی تھی۔بھیا آگئے۔۔۔!
تھوڑی دیر میں سارا خاندان سر جوڑے بیٹھا تھا اور بھیا کہ رہے تھے:
میں نے وہاں پڑھائی کے ساتھ محنت مزدوری کر کے اپنے اخراجات پورے کیے۔میرے پاس پہلے تو فون کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔دہشت گردی کے بعد وہاں پڑھنے والوں مسلمانوں پر بہت پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔بس میں بھی انہی پابندیوںکا شکار ہو گیا۔ڈگری مکمل ہوئی تومیںیونیورسٹی ہاسٹل سے جس ہاسٹل میں منتقل ہوا۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔دہشت گردی کے شبے میں وہاں سے ایک گروہ پکڑا گیا تو مجھے بھی گرفتار کر لیاگیا۔ یہ تو بھلا ہو میرے اساتذہ اور دوستوں کا جو میری تعلیم کارکردگی کی وجہ سے مجھے بخوبی جانتے تھے انھوں نے مہم چلا کر مجھے رہا کروایا۔میں ایک ہفتہ قبل ہی رہا ہوا ہوں۔دوستوں کے توسط سے میری ملازمت ایک اچھی فرم میں ہو گئی ہے۔اتنی تاخیر کے بعد آپ کو فون پر سب بتاتا تو شاید آپ نہ مانتیں اس لیے میں نے سرپرائز دینے کا فیصلہ کیا۔
عنبر اور اس کی امی ہی نہیں بڑے بھیا بھی رو رہے تھے۔
میں جانتا ہوں امی جان! آپ لوگوں نے کتنے کٹھن حالات دیکھے ہیں۔ مجھے معاف کر دیجئے امی جان!
نہیں بیٹا! خدا کا شکر ہے تم واپس آ گئے۔ تم نے بھی تو برے حالات دیکھے ہیں۔میں تو عنبر کو ہی اپنا سب کچھ مان چکی تھی مگر تم آگئے تو فخر سے کہ سکتی ہوں میرے دونوں بچے ذمہ دار ہیں۔امی نے روتے ہوئے کہا۔
بس اب عنبر پڑھے گی اور آپ حج پر جائیں گی گھر کی ساری ذمہ داری میری ہے۔ بڑے بھیا نے دونوں کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
عنبرکو یوں لگا جیسے اس کے ابو جی واپس آگئے ہیں۔اس کی آنکھوں میں ابو کا چہرہ تھا۔
’’یہ ہوتا ہے ہمت اور محنت کا انعام‘‘ ۔ابو جی کہ رہے تھے۔عنبر نے یہ سوچتے ہوئے اپنا سر بڑے بھیا کے کندھے پر رکھ دیا۔