میلہ — نذیر انبالویؔ

0
97

امی جان نے چند کرنسی نوٹ وجاہت کو پکڑاتے ہوئے کہا۔
ایک کلو گرام آلو، پانچ روپنے کا ہرا دھنیا، ایک کلو گرام پیاز، چھے انڈے اور آدھی ڈبل روٹی لے آؤ۔
اتنی چیزیں میں یاد نہیں رکھ سکتا، لکھ کر دیں۔ وجاہت بولا۔
“اچھا بھئی کاغذ پر لکھ دیتی ہوں۔”
کچھ دیر بعد امی جان کی لکھی ہوئی فہرست وجاہت کے ہاتھ میں تھی۔
بس جلدی سے یہ چیزیں لے آؤ، ہر چیز دھیان سے خریدنا،سیدھے گھر آنا، پیسے سنبھال کر رکھنا۔
امی جان کی باتیں سن کر وجاہت بولا۔میں بازار تک تو جا رہا ہوں، آپ تو اس طرح سمجھا رہی ہیں،جیسے میں کسی دوسرے ملک جا رہا ہوں۔ میں پہلے بھی کئی بار سامان لاتارہا ہوں، کبھی خراب چیز لایا ہوں ؟
امی جان کے بولنے سے قبل آپی نے بر آمدے سے اونچی آواز میں کہا۔ “باسی ڈبل روٹی۔”
میں ایک واقعہ باسی ڈبل روٹی کیا لایا، امی جان! آپی تو میری اس غلطی کو پکڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔
فائزہ! تم چپ رہو، جاؤ بیٹا جاؤ، جلدی سے آجانا۔ امی جان بولیں۔
اختر کالونی میں آباد یہ گھرانا چار افراد امی، ابو، فائزہ اور وجاہت پرمشتمل تھا۔ وجاہت کے ابو شجاعت پچھلے پانچ سال سے ملازمت کے سلسلے میں دوحہ میں مقیم تھے۔ سال میں ایک مرتبہ وہ پاکستان آتے تھے۔یوں تو امی جان مہینے کے آغاز میں گھریلو اشیاء اکٹھی لے آتی تھیں مگرچھٹی کے دن کبھی کبھار بارہ سالہ وجاہت کو کچھ سامان لینے کے لیے بازاربھیج دیتی تھیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وجاہت کو خریداری کا تجربہ ہو جائے۔وجاہت گھر سے نکل کر بڑی سڑک کے قریب پہنچا تو اس کا ہم جماعت محسن اسے مل گیا۔
” کہاں جا رہے ہو ؟“ وجاہت نے پوچھا۔
میلے میں جا رہا ہوں، تم بھی میرے ساتھ چلو ۔ محسن نے کہا۔
میں تو گھر سے سامان لینے آیا ہوں۔
سامان بھی لے لیا ، بس آجاؤ میرے ساتھ، میں پرسوں بھی میلے میں آیا تھا، قسم سے بہت مزہ آیا تھا، آجاؤ۔
وجاہت محسن کی باتوں میں آگیا۔میں زیادہ دیر میلے میں نہیں ٹھہروں گا۔ وجاہت بولا۔
ہاں۔۔۔ ہاں تھوڑی دیر ہی وہاں ٹھہرنا، یہ دیکھو میرے پاس پانچ سوروپے ہیں ۔ ” محسن نے اپنی جیب سے پانچ سور روپے کا کرنسی نوٹ نکال کر وجاہت کو دکھایا۔
میرے پاس بھی روپے ہیں مگر ۔۔۔ وجاہت نے جملہ ادھوراچھوڑدیا۔
مگر کیا ؟
میں یہ روپے خرچ نہیں کر سکتا، میں نے ان روپوں سے سامان لے کر گھر جانا ہے۔
تم فکر کیوں کرتے ہو، میلے میں پیسے میں خرچ کروں گا۔ محسن بولا۔
ان ہی باتوں میں مصروف دونوں توحید پارک پہنچے، جہاں جشنِ بہاراں کے سلسلے میں ایک بڑے میلے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میلے میں موت کا کنواں، سرکس، میوزیکل تھیڑ، کھلونوں کی عارضی دکانیں،کھانے پینے کے سٹالز، جھولے الغرض بہت کچھ تھا۔ وہ ہنسی گھر میں ٹکٹ لے کر داخل ہوئے، جہاں پر ہر طرف بڑے بڑے آئینے رکھےگئے تھے۔ ان آیئنوں کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں دیکھنے سے کسی کے کان بڑے ہو جاتے تھے اور کسی کی ناک، دونوں اب آئینوں کے سامنےکھڑے تھے۔ دونوں اپنی شکلیں آئینے میں دیکھتے ہوئے ہنس رہے تھے۔
وجاہت ! تمہارے کان تو گدھے کی طرح لمبے ہو گئے ہیں۔
اپنی ناک تو دیکھو۔ وجاہت بولا۔
دیکھو ،اس آدمی کے دانت تو ڈریکولا کی طرح لمبے ہو گئے ہیں۔۔محسن مسکرا کر بولا۔
وہ کافی دیر وہاں سب کی شکلیں دیکھ دیکھ کر ہنستے ہنساتے رہے۔پھر محسن و جاہت کا ہاتھ پکڑ کر ایک بڑے دائرے کی طرف بڑھا۔
دونوں ایک طرف کھڑے ہو گئے۔وہاں بندر کا تماشا ہو رہا تھا۔ بندرنچانے والے کے ایک ہاتھ میں ڈگڈگی اور دوسرے ہاتھ میں بندر کی رسی تھی۔ بندر والا ڈگڈگی بجاتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا۔مہربان، قدر دان، بندر اب چلا رہا ہے بائی سائیکل، میرے پیارے بندر! اب بائی سائیکل چلا کر دکھاؤ۔ یہ کہہ کر بندر والے نے بندر کی رسی کھینچی تو وہ زمین پر لیٹ کر ٹانگیں اوپر کر کے بائی سائیکل کے پیڈل چلانے کی طرح آگے پیچھے اپنی ٹانگیں چلانے لگا۔
واہ بھئی واہ! بندر بائی سائیکل چلا رہا ہے۔ واہ بھئی واہ !لوگ تالی بجاؤ، زور سے تالی بجاؤ۔
وجاہت نے اپنی گلی میں تو بندر کا تماشا دیکھا تھا مگر اتنے بڑے مجمع میں پہلی بار اسے بندر کا تماشا دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔
میرا بندر اب بابو بنے گا، چل بندر بن جا بابو اور جا دفتر ،بندروالے نے ڈگڈگی بجاتے ہوئے کہا۔
بند ر ہاتھ کمر پر باندھے اکڑ اکڑ کر چلنے لگا۔آہا، آہا بابو دفتر جا رہا ہے۔ بچہ لوگ تالی بجاؤ۔
دائرے کی شکل میں کھڑے بچے ،بوڑھے سب ہی بندر کی اداکاری پر تالیاں بجانے لگے۔ بندر کے بعد بکرے اور کتے نے اپنے کرتب دکھاکر لوگوں کو محظوظ کیا۔ بندر کا تماشا اس قدر دل چسپ تھا کہ دونوں اس میں محو ہو کر رہ گئے تھے۔ جب یہ تماشا ختم ہوا تو محسن وجاہت کا ہاتھ پکڑ کر مٹھائی کی دکانوں کی طرف لے گیا۔
بولو کیا کھاؤ گے ، قلاقند، گلاب جامن یا جلیبیاں۔
قلامند کھا لیتے ہیں۔ وجاہت بولا۔
دونوں قلاقند کھاتے ہوئے موت کے کنویں کے پاس پہنچے۔ اونچےچبوترے پر بیٹا ایک شخص ٹکٹ بیچ رہا تھا جبکہ ایک آدمی لاؤڈ سپیکر پرمسلسل اعلان کرنے میں مصروف تھا۔موت کے کنویں میں دو موٹر سائیکل سواروں کے خطرناک کرتب دیکھیں، پاکستان میں پہلی بار بیک وقت دو موٹر سائیکل سوار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ شو شروع ہونے والا ہے۔ جلدی کریں ٹٹو لے لیں، تھوڑی دیر میں شو شروع ہونے کو ہے۔ یہ اعلان ختم ہوتے ہی ایک فلمی گیت فضا میں گونجنے لگا۔ وجاہت نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو امی جان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سلمان کی پرچی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے کبھی موت کا کنواں نہیں دیکھا تھا۔ محسن نے دو ٹکٹ لے لیے اور اسے بازو سے پکڑ کر کہاکہ “آؤ اوپر چلتے ہیں۔
وجاہت پرچی جیب میں رکھ کر لکڑی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے محسن کے ساتھ موت کے کنویں کے اوپر پہنچ گیا۔ تماشائیوں کی تعدادآہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔ وجاہت نے کنویں میں جھانکا تو دو نوجوان کولڈ ڈرنک پینے میں مصروف تھے۔ دس منٹ کے بعد شو شروع ہونے کااعلان ہوا۔ ایک نوجوان نے کولڈ ڈرنک کا لمبا گھونٹ لیا اور موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے اس پر بیٹھ گیا۔ موٹر سائیکل کا سائیلنسر نہ ہونے کے باعث آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ دوسری موٹر سائیکل کے سائرٹ ہونے پر اس آواز میں مزید اضافہ ہو گیا۔ موٹر سائیکل سواربرق رفتاری کے ساتھ لکڑی کے تختوں سے بنے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے لگے۔ لکڑی کا کنواں بری طرح ہل رہا تھا۔ تماشائی شور مچا کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے جب کہ خوف کے مارے وجاہت کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ پھر ایک ہوٹل سے پیٹ بھر کرتیس منٹ بعد دونوں ایک سرکس کے سامنے کھڑے تھے۔ محسن کی جیب میں دو سو روپے بچے تھے، سر کس کا ٹکٹ ڈیڑھ سو روپے کا تھا۔
میں سر کس کا ٹکٹ خود لے لیتا ہوں۔ وجاہت نے کہا۔
ٹھیک ہے پھر تو مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
ٹکٹ لے کر دونوں سرکس کے چھال میں داخل ہوئے۔ شیر،ہاتھی اور بندروں کے کرتوں سے پہلے دو جو کر اپنی حرکتوں سے لوگوں میں خوشیاں بانٹ رہے تھے۔ جب ایک آدمی شیر کو لیے پنڈال میں داخل ہوا تو ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ جب اس شخص نے اپنا ہاتھ شیر کے جبڑے میں دیا تو لوگ دم بخود رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آدمی شیر پرسوار ہو گیا۔ جنگل کا بادشاہ اپنے مالک کے ہر اشارے کو سمجھ رہا تھا۔ شیرکے بعد ہاتھی کے آتے ہی پنڈال میں موجود بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔ ایک موٹا آدمی زمین پر لیٹا تو ہاتھی نے اپنے اگلے پاؤں اس کی چھاتی پر رکھ دیئے۔ ایسے کرتب میں ہاتھی کی تربیت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ پاؤں کا وزن آدمی پر نہیں ڈالتا، صرف اس کے اوپر رکھتا ہے۔
بہر حال یہ ایک خطرناک کرتب تھا۔ ہاتھی کے دونوں پاؤں کے وزن کی وجہ سے زمین پر لیٹے آدمی نے ہلکی سی چیخ بلند کر کے ڈراما کیا۔ اس خطرناک کرتب کے بعد بندر اپنی شرارتوں سمیت پنڈال میں موجود تھے۔ ایک بچہ کیلا کھا رہا تھا کہ ایک بندر اس سے کیلا چھین کر لے گیا۔
کچھ لوگ کھانے پینے کی چیزیں بندروں کی طرف اچھال رہے تھے اوربندر چھلانگیں لگا لگا کر ان چیزوں کو پکڑ رہے تھے۔
میرے پاس اپنا ویڈیو کیمرا ہوتا تو میں اس منظر کو اس میں محفوظ کر لیتا۔ وجاہت نےبندروں کو شرارتیں کرتے دیکھ کر محسن سے کہا۔وجاہت جب گھر سے نکلا تھا تو جب عصر کا وقت تھا۔ اب مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ اسے ای جان کی کوئی بات بھی یاد نہیں رہی تھی۔وہ یہ بھول ہی گیا تھا کہ وہ کس مقصد کے لیے گھر سے نکلا تھا وہ میلے کی رونق میں گم ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ کبھی بھی اس میلے سے باہر نہ جائے۔ رات کے وقت روشنیوں نے میلے کے حسن میں مزید اضافہ کر دیا تھلہ اب دونوں اس جگہ موجود تھے، جہاں لوگ بھاری وزن اٹھا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس دوران ایک ہاتھ نے محسن کی گردن پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔ محسن نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے ابو جان غصے سے بھرے اس کو گھور رہے تھے۔
کم بخت! میری جیب سے پیسے چرا کر میلے میں آگئے ہو، لاؤ پیسے کہاں ہیں ؟
وہ تو میں نے اور وجاہت نے خرچ کر لیے ہیں۔
کون وجاہت ؟
“ہاں یہ میرا دوست ہے۔”
اس سے پہلے کہ محسن کے ابو جان وجاہت کو بھی پکڑتے، وہ سر پرپاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا، چند منٹوں ہی میں وہ میلے سے دور جا چکا تھا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث گلیاں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ وہ اندھا دھند بھاگ رہا تھا کہ ایک کھلے مین ہول میں گر پڑاکہ اس کے چیخنے چلانے پر دو لڑکے اس کی مدد کے لیے اس کی طرف لگے۔ اس کے بازو پر معمولی سی چوٹ لگی تھی۔ کھڑے اس کے کپڑےخراب ہو گئے تھے۔
بچ گئے ہو بھائی؟
میں ٹھیک ہوں، بازو پر معمولی سی چوٹ لگی ہے۔ میں ٹھیک ہوں۔ آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔
روشن پورا بھی روشنی نہ ہونے کے باعث اندھیرے کی چادراوڑھے ہوئے تھا۔ وجاہت نے ایک نل کے پانی سے کپڑوں سے کیچڑ صاف کی۔ اس نے ہاتھ منہ دھو کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ خالی تھی۔میلے میں کسی نے اس کے پیسے اور سامان کی لسٹ نکال لی تھی۔ خوف نے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔ اس کے لیے گھر واپس جانا مشکل تھا رات کے دس بج رہے تھے۔ اس وقت تو وہ کھانا کھا کر سو جاتا تھا۔ ایک بزرگ کے دربار پر ایک آدمی چاول بانٹ رہا تھا۔ چاولوں کی خوش بو سے وجاہت کی بھوک چمک اٹھی تھی۔ اس نے چاول کھا کر نل سے پانی پیا اور وہیں بیٹھ گیا۔ مزار کی سیڑھیوں کے پاس ڈھول بج رہا تھا۔ وجاہت سیڑ ھیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ چوں کہ یہ اس کے سونے کا وقت تھا، اس لیے ڈھول کے شور کے باوجود اس کی آنکھ لگ گئی۔ وہ کافی دیر تک وہاں سوتا رہے۔ جب وقت گزرنے کے ساتھ بھیڑ کم ہوئی تو بچوں کی ایک فلاحی تنظیم کے ایک آدمی “ناظم” نے اس کو جنجھو ڑتے ہوئے کہا: اٹھو، آنکھیں کھولو۔
وجاہت گہری نیند میں تھا۔ اسے پتا نہیں چل رہا تھا کہ کوئی آدمی اس سے مخاطب ہے۔
بیٹے! آنکھیں کھولو، بتاؤ تمہارا گھر کہاں ہے؟
مجھے سونے دو مجھے سونے دو ۔ وجاہت غنودگی کی حالت میں بڑبڑایا۔
لگتا ہے گھر سے بھاگا ہوا ہے، اٹھا کر گاڑی میں ڈالو۔ ناظم نے اپنے ساتھی امجد کو مخاطب کیا۔
امجد جب وجاہت کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے لگا تو ایک دم اس نے آنکھیں کھول دیں اور شور مچانے لگا۔ ”مجھے چھوڑ دو مجھے چھوڑ دو۔”
وجاہت کے شور میں گاڑی دربار کے ساتھ والی سڑک سے گزر کر مین روڈ پر آگئی۔ نیند وجاہت کی آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔ گاڑی ریلوے پھاٹک کو عبور کر کے ایک عمارت میں داخل ہوئی جس کے مین گیٹ پر بچوں کی فلاحی تنظیم “مددگار” کے مرکزی دفتر کا بورڈ آویزاں تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں فرش پر بچھی چٹائی پر چھے سات بچے چہروں پر اداسی سجائے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ امجد کمرے میں وجاہت کو چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ اپنے
ہم عمر بچوں کو دیکھ کروجاہت کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سب ہی اپنے اپنے گھروں سے سامان لینے نکلے ہوں اور میلے کی رونق میں گم ہو کر گھر نہ جانے پر واپسی کا راستہ بھول گئے ہوں۔
وجاہت نے دیوار سے ٹیک لگائے ایک بچے سے پو چھا: ” تم یہاں کیسے پہنچے ہو ؟”
“میری ماں نے صبح مجھے سکول نہ جانے پر ڈنڈے سے اتنا مارا کہ میرے جسم پر نیل پڑ گےپ۔ میں اب گھر واپس نہیں جاؤں گا، میری ماں مجھے مارے گی۔
سارا دن میں نے کرکٹ میچ کھیلا، اب میں ورک شاپ نہیں جاؤں گا، استاد لوہے کے راڈ سے میری پٹائی کرے گا۔ ” دروازے کے ساتھ باٹھ بچہ بھی چلانے لام۔
تھوڑی دیر میں وجاہت کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ سب بچے کیڈ نہ کسی گم راہی اور مار کا شکار ہو کر گھروں سے بھاگے ہیں۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اسے گھر میں کبھی بھی کسی سے مار نہیں پڑی۔ سب اس سے پیارکرتے ہیں۔ پھر تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہوگئی۔ گھر سے نکلنے سے لے کر اب تک کی ایک ایک بات اس کی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی۔ وہ اس کم زور لمحے کو کوس رہا تھا، جب وہ محسن کی باتوں میں آیا تھا۔ اگر وہ محسن کی باتوں میں نہ آتا تو اس وقت گھر کے نرم بستر پر نیند کے مزے لوٹ رہا ہوتا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔
مچھر کانوں کے پاس آکر آوازیں نکال نکال کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ جب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث کمرا اندھیرے میں ڈوب
گیا تو وجاہت سمیت سب ہی بچے چیخنے چلانے لگے۔ چند منٹوں بعدکمرے میں موم بتی روشن کی گئی تو یہ چیخ و پا۔ر ختم ہوئی۔ وجاہت نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی۔ گھر سے باہر یہ رات وجاہت سے کاٹے نہ کتی۔ تھی۔ اس پر ایک ایک لمحہ بھاری گزر رہا تھا۔ خدا خدا کر کے دن کا اجالا رات کے اندھیرے پر غالب آیا تو ایک ادھیڑ عمر شخص “اقبال”ہاتھ میں رجسٹر لیے کمرے میں آیا۔ اس نے باری باری سب بچوں سے ان کے نام اور گھر کے پتے معلوم کیے۔ کچھ بچے خاموش رہے اور کچھ نے سب کچھ اقبال کو سچ سچ لکھوا دیا۔ جب وجاہت کی باری آئی تو اس نے حرف بہ حرف اپنی کہانی سنادی۔
کیا گھر جانا چاہتے ہو ؟
میں اس جگہ نہیں رہ سکتا، مجھے اپنے گھر جاتا ہے، جہاں میری پیارکرنے والی ماں اور میری اچھی ہی آپی ہے، میں گھر جاؤں گا۔
اقبال نے بچوں کو بتایا کہ انہیں اس کمرے میں تنہا اس لیے رکھاگیا تھا تا کہ وہ گھر اور گھر سے باہر کے ماحول کا فرق محسوس کر سکیں۔
پھر وجاہت کے بتائے ہوئے نمبر پر رابطہ کیا تو وجاہت کے ماموں سے اقبال کی بات ہوئی۔
کچھ کاغذی کارروائی کے بعد ماموں وجاہت کو گاڑی میں بٹھا کر گھرکی طرف روانہ ہوئے۔ وجاہت کا سر شرمندگی سے جھکا ہوا تھا۔ اس میں
اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ امی جان اور آپی کے بارے میں کچھ پوچھ سکتا۔وجاہت کی آنکھیں امی جان کو تلاش کر رہی تھیں۔
امی جان کمرے میں تمہارے غم میں نڈھال نیم بے ہوش پڑی ہیں۔ آپی بولیں ۔ وجاہت کو اپنے سامنے دیکھ کر امی جان کی آنکھوں میں چمک آئی۔ وجاہت نے امی جان کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
امی جان! مجھے معاف کر دیں، میں نے آپ کو بہت دکھ دیا ہے۔
پھر وجاہت نے روتے روتے سب کچھ بتا دیا۔ ای جان کا مر جھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
میرے بیٹے ! مجھے بتاتے، میں خود تمہیں میلے میں لے کر جاتی۔ میری ایک بات پلے سے باندھ لو۔ اس بات کو ہمیشہ یادبھی رکھنا اور اس پر عمل بھی کرتا۔۔
کہیے امی جان! میں سن رہا ہوں۔
بیٹا زندگی ایک میلا ہے۔ زندگی کے اس میلے میں قدم قدم پربہت سی چیزیں انسان کے قدم جکڑتی ہیں مگر وہی لوگ اپنی مراد پاتےہیں جو نہ اپنے مقصد سے نظر بناتے ہیں اور نہ کسی کی باتوں میں آکر اس میلے کی رونق میں گُم ہوتے ہیں۔
امی جان میں یہ بات یاد بھی رکھوں گا اور اس پر ہر لمحہ عمل بھی کروں گا۔ آپ بس ایک مرتبہ مجھے معاف کر دیں۔ وجاہت کی یہ بات
سن کر امی جان نے اس کو اپنی آغوش میں چھپا لیا جہاں اس کے لیے پیارہی پیار تھا۔

نذیر انبالوی24 دسمبر 1965ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بچوں کے صف اول کے ادیب ہیں۔ ان کی بچوں کے لیے درجنوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اقوال کہانیاں،ایک قول ایک کہانی،ایک آیت ایک کہانی،ایک حدیث ایک کہانی،ہوا زندہ رہے گی،آزادی زندہ باد،ایک سبق ایک کہانی،پھولوں والا راستہ،وہ کون تھی،وہ ایک وجہ،بچوں کے عالمی حقوق کا معاہدہ قرآن و سنت کی روشنی میں،سٹوری کوئز،بدھو میاں کی کہانیاں،سکول کہانی،دیس دیس کی کہانیاں،نعمت آموز کہانی،اخلاقی کہانیوں،روشنی،فاتح کون؟،ایک بوند پانی،ایک تھی بھوری،مانو اور بنٹی،عروج،ہار سے جیت تک،کرمانوالا سٹور،میرا محسن،محافظ،تلاش گمشدہ،وہ ایک وعدہ،صرف ایک آدمی،آزاد آشیانہ ان کی نمایاں کتب ہیں۔وہ ماہنامہ تعلیم و تربیت اور اقرا کے مدیر کے طور پر ادارت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ آج کل تدریس کے ساتھ ساتھ بچوں کی کہانیاں 1947 تا 2022 ترتیب دے رہے ہیں جو دس جلدوں میں شائع کر تاریخ رقم کرے گی۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here