تھینک یو! اللہ میاں —- ضیا اللہ محسن

0
301

ضیاء اللہ محسن ؔ

آٹھ سالہ مامون اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا اسکول ورک دیکھنے میں مصرو ف تھا ۔اس سے پانچ سال چھوٹی مائرہ قریب کھڑی انگوٹھا چوس رہی تھی۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو مامون نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔آج بھی وہ ہمیشہ کی طرح دروازے پراسرار انکل کو دیکھ کر سہم گیا۔اُسے علم تھاکہ اسرار انکل روزانہ کی طرح اسے اور اس کی مما کو جلی کٹی سُنائیں گے اور وہی ہوا…اسرار اصاحب خوب گرجے ۔خوب برسے…ان کے واپس جاتے ہی مامون سہما ہوا اپنی ماں کے پاس چلا آیا۔
’’ مماجی ! اسرار انکل ہم سے روزانہ پیسے کیوں مانگنے آجاتے ہیں۔کیا ہمارے پاس ان کو دینے کے لئے بہت سارے پیسے نہیں ہیں ۔۔؟‘‘ مامون نے معصومیت بھرے لہجے میں اپنی ماں سے سوال کیا ،تو ماں نے ایک سرد آہ بھرکر چھے ماہ کی گڑیا رانی کو چار پائی سے اٹھایا اور کرائے کے مکان پر نظرڈال کر آنکھوں میں آنسو لئے کمرے میں چلی گئی۔
ننھا مامون یہ منظر دیکھ کر حسبِ معمول آج بھی افسردہ ہوگیا۔
’’مما جی مجھے دودھ پینا ہے۔۔‘‘تین سالہ مائرہ نے اپنی توتلی زبان میں آواز لگائی ۔۔
’’چٹاخ…‘‘ مامون کا ایک زور دار طمانچہ مائرہ کے گال پر لگا۔ ’’مائرہ کی بچی ! تجھے معلوم نہیں کہ ہمارے پاس دودھ نہیں ہے …مما نے تمھیں کتنی بار بولا ہے کہ ابا جان جب آئیں گے تو دودھ لے آئیں گے،ہونہہ ۔‘‘مامون نے روتی ہوئی مائرہ کی طرف غصے کے ساتھ دیکھااور پھر خودبھی آنکھوں میں آنسو بھر لایا ۔
’’مگر بابا جان کو گئے ہوئے تو بہت دیر ہوچکی ہے و ہ و اپس کیوں نہیں آ رہے۔؟ ‘‘ننھی مائرہ نے قمیص کے دامن کے ساتھ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تو مامون نے ہچکی لیتی ہوئی ننھی مائرہ کو اپنے ساتھ لگا لیا ۔پھر وہ خود بھی اس سوال پر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اعظم صاحب کو فوت ہوئے دس ماہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔مامون ، مائرہ اور چھ ما ہ کی گڑیا رانی اپنی مما کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے۔ مائرہ ہمیشہ سوچتی رہتی کہ ان کے پاس دوسرے بچوں کی طرح آئس کریم اور کھلونے کیوں نہیں ۔لیکن مامون اب شاید ان چیزوں کو بھو ل چکا تھا ۔حالا ت نے چھوٹی عمر ہی میں اس کی سو چوں کادھا را بدل ڈالا تھا۔اب وہ ،بجلی کا بل،مکان کا کرایہ،گھر کا راشن اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ سے آشنا ہوچکا تھا ۔ لیکن ایک بات اس کے ننھے دماغ میں گردش کرتی رہتی ،وہ یہ کہ اگر بابا جان مما کے کہنے کے مطا بق کہیں گئے ہیں تو پھر مما روتی کیوں رہتی ہیں۔یہی سوال اسے تنگ کرتا رہتا تھا۔وہ اکثر اسی طرح کے سوالات میں اُلجھا رہتا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد کے خادم نے بجلی کے بل کی دو تین تہیں لگائیں اور اسے مسجد کے چندے والے باکس میں ڈال دیا۔قریب کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔یہ ساری صورت حال دیکھ کروہ ذرا بے چین سا ہو گیا۔آخر بھاگ کر وہ خادم صاحب کے پاس آیااور بولا
’’انکل! بجلی کا بل تو بازار میں دیا جاتا ہے ،آپ نے یہاں کیوں ڈال دیا۔۔‘‘
’’بیٹا یہ مسجد کا بل ہے،اورمسجد اللہ کا گھر ہے ۔ اللہ اپنے گھر کے بل کا انتظام خود ہی کرلے گا۔ ہم کمزور بندے بھلا کیا کر سکتے ہیں۔‘‘مسجد کے خادم نے مسکرا کر جواب دیا
’’انکل! کیا اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سے پیسے ہیں۔۔؟‘‘ مامون نے تجسس سے پوچھا تو خادم بابا مسکرا دیئے اور بولے
’’ہاں بیٹا اللہ کے پاس بہت ذیادہ پیسے ہیں ۔‘‘اتنا کہہ کر بابا جی ایک جانب چل دیئے۔یہ بات سن کر مامون کچھ سوچ میں پڑگیا اوپھر اس نے اپنے گھر کی جانب دوڑ لگا دی ۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنے سکول بیگ سے کاپی پنسل نکالی اور سب سے چھپ کر کچھ لکھنا شروع کردیا۔تحریر مکمل کرنے کے بعد اس نے کا غذ کو تہہ کر کے اپنی جیب میں ڈالا اور مسجد کی جانب چل پڑا۔
اس مرتبہ جب مسجدکی انتظامیہ نے چندہ باکس کھولا تو اس میں بجلی کے بل کے علاوہ ایک عدد تڑامڑا سا کاغذ کا ٹکڑا بھی موجود تھا۔مسجد کمیٹی کے چیئر مین حاجی اللہ بخش صا حب نے بجلی کا بل اپنی جیب میں ڈالا اور کاغذ کا ٹکڑا کھو ل کر پڑھنے لگے ۔یہ ٹوٹی پھو ٹی لکھائی میں لکھی ہوئی کوئی عبارت تھی۔
ـــ’’پیارے اللہ میاں کے نام ۔۔۔‘‘
السلام علیکم ! پیارے اللہ میاں آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ میں کتنا پریشان ہوں۔اسرار انکل بہت گندے ہیں ۔وہ روزانہ ہمیں اور ہماری مما کو ڈانٹتے ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ہمارے پاس کھانے پینے کا سامان لانے کو بھی کچھ نہیں ہے ۔لیکن وہ ہمیں گھر سے نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔اِدھر مائرہ آئس کریم ،دودھ او ر بسکٹ مانگتی رہتی ہے۔اسے مما ٹال دیتی ہیں ، لیکن خود وہ روتی رہتی ہیں۔میرے پیارے اللہ میاں ۔۔آپ تو بہت بڑے ہیں نا…بہت بڑے… اور آپ کے پاس تو بہت سے پیسے بھی ہوں گے نا، اور میری مما کہتی ہیں کہ آپ کو تو ہماری طرح کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔پھر آپ اتنے ذیادہ پیسو ں کا کیا کریں گے۔؟پیارے اللہ میاں…!مجھے پیسوں کی شدید ضرورت ہے ۔ میں اپنی مما کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا … اگر اس دفعہ آپ اپنے گھر یعنی مسجد کا بل نہ دیں،اور وہ پیسے مجھے اُدھار دے دیں ،تب میرا کام بن سکتا ہے ۔ میں…میں وعدہ کرتاہوں پیارے اللہ جی !کہ بڑاہو کر یہ رقم آپ کوضرور واپس کردوں گا۔امی جان کہتی ہیں کہ ہمارے ابو جان بہت ساری چیزیں لینے گئے ہوئے ہیں،لیکن ابھی تک نہیں لوٹے ۔مجھے سب پتا چل گیا ہے اب…پیارے اللہ میاں ! آپ ہمیں ہی چیزیں دلا دیں ناں…گھی ، ،چینی، دودھ ،مکان کے کرا یہ کے لئے کچھ رقم، مما کے کپڑے اور سبزی وغیرہ۔اور ہاں چھوٹی گڑیا رانی بہت روتی ہے ،اس کے لیے ایک چوسنی،مائرہ کے لئے آئس کریم اور میرے لیے اسکول کی فیس اور ہوم ورک کے لئے دوعدد کاپیاں۔۔!
نوٹ؛ پیارے اللہ میاں…انکار مت کرنا اور نہ ہی ابو جان کی طرح دیر لگانا،ورنہ میںناراض ہو جائوں گا۔ مجھ سے اپنی مماکو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ ۔ آپ کا دوست: مامون اعظم
مسجد کمیٹی کے چیئر مین حاجی اللہ بخش نے جیسے ہی تحریر ختم کی ،تو ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔وہ اس ٹوٹی پھو ٹی تحریر کو باربار پڑھ رہے تھے اورپڑھ پڑھ کر چوم رہے تھے ۔ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو بری طرح کوس بھی رہے تھے ۔پھر حاجی صاحب اسی وقت پُر جوش انداز میں اٹھے اور مسجد سے باہر چل دیئے۔ان کا رخ نامعلوم منزل کی طرف تھا۔اس تیزی سے مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھ کر چند لوگ حیرا ن رہ گئے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی دروازے پر دستک ہوئی ،حسبِ معمول بے چارا مامون بری طرح سہم گیا۔ آج پھر وہ ڈانٹ اور جھڑکیاں سننے کے لیے تیار ہو چکا تھا ،وہ خوف ذدہ ہو کر دروازے کے قریب پہنچ گیا،پھر با ہر قدم رکھتے ہی اس نے ایک الگ منظر دیکھا۔ایک بابا جی دو تین وزنی شاپر ہا تھ میں لیے کھڑے تھے۔انہوں نے یہ شاپر دروازے کے اندر رکھے اور مامون کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھا ۔’’باباجی یہ کیا اور کس کے لیے ہے؟‘‘مامون نے حیران ہوتے ہوئے بے چینی سے سوال کیا۔
’’بیٹا کچھ چیزیں ہیں کھا نے کی۔۔۔اور تمہا ری کاپیاں ہیں۔ ۔‘‘بابا جی کی آنکھوں میں نمی تھی ۔ان کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
لیکن یہ کس نے بھیجی ہیں…؟ مامون کی آنکھوں میں مذید حیرانی اور چمک پیدا ہو گئی۔
’’اللہ میاں نے ۔‘‘حا جی اللہ بخش صاحب نے جواب دیا اورمامون کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک طرف چل دیے۔ مامون خوشی سے پاگل ہو ا جا رہا تھا ۔اس نے اندر کی طرف دوڑ لگادی اور ساری بات مما کو بتا دی ۔اس کی مما بھی حیرانی سے دو چار تھیں،اور قدرے خوش بھی ۔وہ اللہ کی طرف سے اس غیبی امدادپہ سربسجود ہوچکی تھیں۔ ادھر مائرہ اور مامون خوشی سے دوہرے ہوئے جا رہے تھے ۔اب دونوں نے آسمان کی جانب منھ کر کے ایک زبردست نعرہ لگایا
’’ تھینک یو …اللہ میاں…آپ بہت اچھے ہیں‘‘

ضیا اللہ محسن بچوں کے ادب میں ایک معتبر مقام کے حامل ہیں۔ نظموں کے ساتھ ساتھ کہانی پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ضیا اللہ محسن آج کل بچوں کے کثیرالاشاعت رسالے "الف نگر" کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here