روشنی
شکیل انوار صدیقی
ایک بادشاہ تھا ۔ اپنے عوام کا بے حد خیال رکھنے والا بادشاہ ۔ رحم دل اور انصاف پرور بادشاہ۔اس کے تین بیٹے تھے ۔ جب بادشاہ بوڑھا ہو گیا تو اس نے تینوں شہزادوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا :“ میرے بچو ! تم دیکھ ہی رہے ہو کہ اب ہم بہت بوڑھے اور کمزور ہو گئے ہیں اور حکومت کی ذمہ داریاں زیادہ دنوں تک سنبھال نہیں سکتے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب تم میں سے کوئی حکومت کی اس ذمہ داری کو سنبھال لے۔
تینوں شہزادے سعادت مند بیٹے تھے۔ تینوں نے کہا : ”آپ جسے مناسب سمجھیں یہ ذمہ داری سونپ دیں ۔“بادشاہ مسکرایا اور بولا، دل کے ٹکڑو! آنکھ کے تارو! تم تینوں ہی ہمارے لیے یکساں ہو۔ ہم تم میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں کرنا چاہتے ۔
بادشاہ تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ شہزادوں نے سوالیہ نگاہوں سے اپنے بادشاہ باپ کو دیکھا۔
بادشاہ نے کہا :“ہم نے ایک بہت بڑا گودام تعمیر کرایا ہے اور ہم اس میں عوام کے لیے سب سے ضروری چیز کا ذخیرہ کرنا چاہتے ہیں۔ تم تینوں میں سے جو بھی اس گودام کو اس ضروری چیز سے بھر دے گا، ہم اسی کو اپنا تخت و تاج سونپ دیں گے۔“وہ کیا چیز ہے ابا جان؟‘ تینوں شہزادے ایک ساتھ بولے۔ بادشاہ ہنس پڑا ۔ یہی تو تمہاری آزمائش ہے ۔ خزانے سے جس قدر دولت چاہتے ہو لے لو اور آج ہی اس چیز کی تلاش میں نکل جاؤ ۔ ہمیں اپنے تینوں بیٹوں پر بھروسا ہے کہ ہماری خواہش ضرور پوری ہوگی ۔“ تینوں شہزادے الگ الگ سمتوں میں سفر پر روانہ ہو گئے اور تقریباً ایک ماہ بعد تینوں شہزادے ایک ساتھ واپس آگئے۔ بادشاہ نے ان کے آنے کی خوشی میں ایک شاندار جشن منایا اور اسی جشن کے دوران عوام کے سامنے بادشاہ نے اپنے تینوں بیٹوں سے پوچھا: ”ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بیٹے سب کو بتائیں کہ وہ عوام کے لیے سب سے ضروری چیز کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں؟“
“جی ہاں، ہم اس چیز کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔“ بیٹوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
پہلے ہمارا بڑا شہزادہ بتائے کہ وہ کیا چیز ہے؟ بادشاہ نے بڑے بیٹے سے سوال کیا۔ بڑے شہزادے نے اپنی جیب سے مٹھی بھر اناج نکالا۔ “ابا جان ! میں اناج سے اس گودام کو بھر دوں گا۔ عوام کے لیے روٹی سے زیادہ ضروری چیز کوئی بھی نہیں ہے۔ میں نے دور دراز کا سفر کیا۔ہر جگہ یہی دیکھا کہ روٹی سے زیادہ ضروری چیز اور کوئی نہیں ہے۔“
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دوسرا شہزادہ بھی بتائے کہ وہ ضروری چیز کیا ہے؟ بادشاہ نےکہا۔“ ابا جان! میں اس گودام کو دولت سے بھر دوں گا”۔ دوسرا بیٹا بولا ۔دولت کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے اس لیے دولت سے زیادہ ضروری چیز کوئی بھی نہیں ہے۔“
اب بادشاہ نے اپنے چھوٹے بیٹے سے جواب طلب کیا ۔ “ بیٹے!تم بھی تو بتاؤ ۔“
میں۔۔۔!چھوٹا بیٹا آہستہ سے بولا ۔ “ میں ، ابا جان آپ کے عوام کے لیے بنائے گئے اس گودام کو روشنی سے بھر دوں گا ۔“
روشنی سے؟ صرف روشنی سے؟ بادشاہ نے حیرت سے کہا۔
“جی ہاں ابا جان ! روشنی سے علم کی روشنی سے ! چھوٹے بیٹے نے بولنا شروع کیا ۔ ”
آدمی علم کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ نہ دولت اکٹھی کر سکتا ہے اور نہ ہی اناج پیدا کر سکتا ہے۔
شاباش بیٹے ! بادشاہ نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو گلے سے لگا لیا ۔ سچ کہا ہے تم نے ۔ آدمی کے لیے علم سے بڑھ کر ضروری چیز کوئی بھی نہیں ہے۔
پھر بادشاہ نے عوام کے سامنے اعلان کیا:
“ہم اپنے بعد اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو تمہارا بادشاہ مقررکرتے ہیں ۔ وہ تمھیں علم کی روشنی سے مالا مال کر دے گا ۔ ایسی روشنی جسے پا کر تم دولت پاسکتے ہوا ناج بھی پیدا کر سکتے ہو۔“
علم کی روشنی دینے والا بادشاہ زندہ باد! ہمارا نیا بادشاہ زندہ باد!! عوام نے خوش ہو کر نعرے لگائے۔