اللہ کا وعدہ —— تحریر: کاشف بشیر کاشفؔ

0
37

اللہ کے نام پر دے دو بابا!دس دنیا ستر آخر۔۔۔۔ اللہ کے نام پر بابا۔۔۔گلی میں یہ صدا مسلسل گونج رہی تھی۔ننھی نے اپنی گُڑیا گود میں اٹھائی اوربھاگ کر دروازے پر جا پہنچی۔گُڑیا کو اٹھائے اس نے گلی میں جھانکا تو ایک نابینا بزرگ چھوٹے سے بچے کا ہاتھ پکڑے گلی میں صدا لگا رہا تھا۔
آؤ، ہم امی سے انکل کے لیے کچھ لے کر آتے ہیں۔ننھی نے گڑیا کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے باورچی خانے کی طرف دوڑ لگا دی جہاں اس کی امی رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
امی!۔۔۔ امی! آپ کے پاس کچھ پیسے ہیں تو جلدی دیں۔وہ باہر انکل اللہ کے نام پر کچھ مانگ رہے ہیں۔ننھی نے ہانپتے ہوئے امی سے کہا۔
یہ لو دس روپے، امی نے مسکراتے ہوئے الماری سے دس روپے کا نوٹ نکال کر ننھی کے ہاتھ میں تھما دیا۔
بیٹا! جلدی سے روپے انھیں دے کر گھر آجاؤ۔ دور مت جانا۔امی نے ہدایت کی اور ننھی جس تیزی سے باورچی خانے میں آئی تھی،دس روپے لے کر اسی تیزی سے دروازے کی طرف بھاگ گئی۔گلی میں اب تک ’’اللہ کے نام پر دے دو بابا! ‘‘ کی صدا گونج رہی تھی۔ننھی نے دس کا نوٹ صدا لگانے والے بزرگ کو دیا تو بزرگ نے اسے دعائیں دینا شروع کر دیں۔محلے کے بہت سے لوگ اس بزرگ کو پیسے دے رہے تھے۔وہ کچھ دیر یہ منظر دیکھتی اور کچھ سوچتی رہی اور پھر واپس گھر آگئی۔امی اب بھی باورچی خانے میں مصروف تھیں۔
امی! یہ ’’اللہ کے نام پر دے دو‘‘ کی تو سمجھ آتی ہے مگر ’’دس دنیا ستر آخر‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ننھی نے معصومیت سے باورچی خانے میں پہنچ کر سوال کیا۔
بیٹا! اس کا مطلب ہے کہ کوئی کسی ضرورت مند کی جتنی مدد کرے گا اللہ اس کا دس گنا اسے دنیا میں ہی دے گا اور ستر گناآخرت میں ۔امی نے کڑاہی میں گھی ۔انڈیلتے ہوئے جواب دیا۔
اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ مجھے آج سو روپے دے گا۔ ننھی نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ آج دے یا کل۔مگر اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔امی بولیں۔
آئو بھئی میری گُڑیا ہم کھیلیں، دیکھنا اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور سو روپے دیں گے۔وہ گڑیا کو تھپکتی ہوئی باورچی خانے سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔

٭٭٭٭

یہ لو دس ہزار روپے۔سنبھال لو۔کل سے ہوٹل بند رہے گا اب عید تک اسی رقم سے گزارہ کرنا ہے۔ابو نے گھر آتے ہی امی کو روپے تھماتے ہوئے کہا۔اور یہ میری بیٹی کا جیب خرچ،ابو نے سو روپے کا نوٹ نکال کر ننھی کو تھمایا ۔ابو کی آوازسنتے ہی ننھی بھی وہاں آ پہنچی تھی۔
ابو! آج دس کی بجائے سو کیوں۔۔۔اوہ اچھا ،اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ننھی نے سوال کرتے کرتے خود ہی جواب دیا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ؟ کون سا وعدہ بھئی؟ ابو نے حیرت سے پوچھا۔تو ننھی نے اپنی توتلی زبان میں انھیں شام کا پورا قصہ سناڈالا۔
ہاں جی، اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ابو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ابو! ہوٹل کیوں بند رہے گا کل سے؟؟؟ اپنے سوال کا جواب پا کر اس نے ایک اور سوال کر دیا۔
کل سے رمضان کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور احترامِ رمضان کی وجہ سے ہم ہوٹل بند رکھیں گے۔ابو بولے۔
اس دوران امی نے کھانا لگا دیا تھا ۔سب خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ننھی دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہی تھی جنھوں نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے اسے پورے سو روپے دئیے تھے۔
ننھی اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ نام تو اس کا کرن تھا مگر سب اسے ’’ننھی ‘‘ ہی کہتے تھے۔اس کی عمر تین سال تھی مگر اس کا دماغ اس کی عمر سے کہیں آگے تھا۔وہ اتنی سی عمر میں اتنے سوال کرتی کہ بعض اوقات تو امی ابو کے لیے جواب دینا مشکل ہو جاتامگرکم پڑھے لکھے ہو کر بھی اس کے امی ابو نے اسے سوال کرنے سے منع نہیں کیا تھا۔وہ اپنی بساط کے مطابق اس کے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتے تھے۔اس کے ابو کا چھوٹا سا ہوٹل تھاجس سے ان کی گزر بسر ہورہی تھی۔

٭٭٭٭

رمضان کا دوسرا عشرہ شروع ہو چکا تھا۔اپنے امی ابو کو روزے رکھتے دیکھ کر ننھی بھی چاہتی تھی کہ وہ روزہ رکھے مگر جب امی نے اسے بتایا کہ ابھی اس پر روزہ فرض نہیں ہوا تو وہ مان گئی ۔وہ ہر روز سحری کے وقت جاگتی تا کہ سحری کا ثواب حاصل کرسکے۔یہ بات بھی اس کی امی نے اسے بتائی تھی۔
لو بھئی ! کل افطار کے بعد ہم ’’ننھی ‘‘ کے لیے عید کے کپڑے اور جوتے خریدنے جائیں گے۔ایک شام جب وہ سب افطار کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو ابونے کہا۔
میں روشنی والے جوتے لوں گی اور گڑیا کی نئی فراک بھی۔ننھی خوش ہوتے ہوئے بولی۔
سب کچھ ملے گا میری بیٹی کو،چمکیلی چوڑیاں،گڑیا کی فراک،جوتے اور جو آپ مانگیں گی۔ ابو مسکراتے ہوئے بولے۔
ابو جی! امی اور آپ کے کپڑے میری پسند کے ہوں گے۔ابھی ننھی نے یہ کہا ہی تھا کہ دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی اور ابو ننھی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔کچھ دیر بعد وہ واپس آئے تو ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔
بیگم! وہ دس ہزار روپے رکھوائے تھے تمھارے پاس وہ مجھے دے دو۔ انھوں نے ننھی کی امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
سب خیریت تو ہے ناں؟ آپ کچھ پریشان نظر آرہے ہیں۔
وہ۔۔۔خیر دین کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔اس کا بیٹا آیا ہے پیسے لینے۔جلدی کرو اور وہ رقم نکال لائو جلدی سے۔
مم۔۔مگر وہ رقم تو۔۔۔۔۔
اللہ کوئی بندوبست کر دے گا۔بس اللہ کرے خیر دین کی جان بچ جائے۔تم وہ رقم نکال لائو۔
کچھ ہی دیر بعد ننھی کے ابو رقم لے کر خیر دین کے بیٹے کے ساتھ ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئے۔خیر دین ان کے ہوٹل کا دیرینہ ملازم تھا ۔ننھی کے ابو اس کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ننھی کو بھی خیر دین انکل بہت اچھے لگتے تھے۔وہ دو تین بار ابو کے ساتھ ہوٹل پر گئی تھی تو خیر دین انکل اس سے بہت پیار سے پیش آئے تھے اور کھانے کو اس کی پسند کی چیزیں دی تھیں۔ننھی دل ہی دل میں ان کی خیریت کی دعائیں مانگنے لگی۔

٭٭٭٭

خیر دین کی ٹانگوں کا آپریشن ہوا تھا۔ننھی کے ابو نے اس کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔اگرچہ خود ان کے پاس عید تک گزارہ کرنے کے لیے یہی رقم تھی پھر بھی انھوں نے کسی پس و پیش سے کام نہ لیا۔خیر دین تیزی سے بہتر ہو رہا تھا۔ اُس کے گھر والے ننھی کے ابو کے بہت شکر گزار تھے۔
ایک شام وہ سب صحن میں بیٹھے تھے کہ ننھی کے چچا اپنے بچوں کے ساتھ ان کے گھر آئے ۔وہ بازار سے بچوں کے لیے عید کے کپڑے اور جوتے خرید کر لائے تھے۔ان کے بچے مینا اور علی اپنے کپڑے ننھی کو دکھا کر خوش ہو رہے تھے۔وہ سب کچھ دیر ننھی کے گھر رہے اور رخصت ہو گئے۔
ابو! اب ہم شاپنگ کے لیے نہیں جائیں گے؟؟؟اس شام ننھی نے ابو سے سوال کیا۔رمضان کا مہینہ اب تیسرے عشرے میں داخل ہو چکا تھا۔
کک۔۔کیوں نہیں بیٹا؟ ہم کل ہی شاپنگ کے لیے جائیں گے۔ابو نے ننھی کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا ۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ننھی کے ابواس سے نظریں چرا رہے تھے۔ ننھی سمجھ گئی کہ ابو کے تمام پیسے انکل خیر دین کے علاج میں خرچ ہو گئے ہیں۔
کوئی بات نہیں ابو! مجھے کچھ نہیں چاہئے۔۔۔۔ اللہ کرے انکل خیر دین جلد ٹھیک ہو جائیں۔ننھینے غیر متوقع طور پر کہا تو اس کی امی کی آنکھیں بھر آئیں۔
کیوں نہیں بیٹا؟ ہم کل ضرور بازار جائیں گے۔ابو بولے ان کی آنکھوں میں بھی نمی کے جگنو چمک رہے تھے۔ننھی جانتی تھی کہ ابو کا ہوٹل بند ہے اور امی کے پاس جو جمع پونجی ہے وہ بھی سحر وافطار کے کام ہی آسکتی ہے اس لیے ۔۔۔اس لیے نہ تو وہ روشنی والے جوتے لے سکتی ہے نہ گُڑیا کی فراک۔۔۔۔
٭٭٭٭
دس دنیا ستر آخر۔۔۔۔ اللہ کے نام پر دے دو بابا!
ننھی اپنی گڑیا کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ اچانک اس کے کانوں میں یہ آواز پڑی۔ وہ دس کا نوٹ لے کر دروازے کی طرف لپکی ہی تھی کہ دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔
وہ نوٹ پکڑے دروازے پر پہنچی تو دروازے پر ایک نوجوان موجود تھا۔
آپ کے ابو ہیں گھر پر۔۔۔۔؟ نوجوان نے اسے دروازے سے نکلتے دیکھ کر اس سے پوچھا۔
جی۔۔۔ایک منٹ بس میں انکل کو پیسے دے آئوں پھر ابو کو بلاتی ہوں۔ننھی نے دس روپے نابینا بزرگ کو پکڑائے اورگھر میں آکر ابو کو اس نوجوان کے بارے میں بتایا۔ابو نے اس نوجوان کے لیے بیٹھک کا دروازہ کھول دیا تھا۔ ننھی اپنی گڑیا سے کھیل رہی تھی۔اسے یقین تھا کہ آج بھی اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اسے سو روپے ضرور ملیں گے۔

٭٭٭٭

بیگم! رضوان بھی آج افطاری ہمارے ساتھ ہی کرے گا۔اچھی سی افطاری بنانا کچھ چاہئے تو مجھے بتا دو میں بازار سے لا دیتا ہوں۔
نہیں! اللہ کا شکر ہے سب کچھ موجود ہے۔ننھی کی امی نے جواب دیا۔
جائو بیٹا! یہ افطار کا سامان اندر پہنچانے میں ابو کی مدد کرو۔افطاری تیار ہونے کے بعد امی نے ننھی کو بلا کر اس کے ہاتھ میں پکوڑوں سے بھری ٹرے تھماتے ہوئے کہا۔ننھی نے ٹرے اٹھائی اور بیٹھک کی طرف بڑھ گئی۔
مراد صاحب! اگر آپ اپنی کمیٹی کی رقم مجھے نہ دیتے تو میں یونیورسٹی کی فیس کبھی ادا نہ کر پاتا۔میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ننھی کمرے میں داخل ہوئی تو وہ نوجوان اس کے ابو سے کہ رہا تھا۔
’’رضوان! میں نے چھوٹا بھائی سمجھ کر اپنی کمیٹی تمھارے حوالے کی تھی۔اور آج تم نے میری رقم مجھے لوٹا دی تو کیسا احسان‘‘۔
آپ یہ رقم گن لیں۔۔۔پورے ایک لاکھ روپے ہیں۔
السلام علیکم!ننھی نے اندر داخل ہو کر سلام کیا۔ننھی کے ابو اور وہ نوجوان دونوں اس کے سلام کرنے پر چونک پڑے ۔
وعلیکم السلام! نوجوان جس کا نام رضوان تھا، اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔وہ ٹرے رکھ کر جانے لگی تھی کہ وہ بولا:
بیٹا! ادھر آؤ۔۔۔ کیا نام ہے آپ کا۔
جی کرن! ننھی نے جواب دیا۔
ماشا اللہ بہت پیاری بیٹی ہے آپ کی مراد صاحب! یہ لو بیٹا، رضوان نے جیب سے سو کا نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔
نہیں انکل! آپ کا شکریہ۔۔۔۔ ننھی بولی۔
یہ تو آپ کو لینے پڑیں گے، ہم نے پہلی بار اپنی بھتیجی کو دیکھا ہے ناں۔۔۔۔ رضوان نے زبردستی سو کا نوٹ ننھی کو تھما دیا۔سو کا نوٹ پا کر ننھی کو لگا جیسے اللہ تعالیٰ نے آج ایک بار پھر اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔افطار کے بعد بھی رضوان کافی دیر بیٹھک میں موجود رہا۔جب وہ وہاں سے رخصت ہوا تو ابو اندر آتے ہی بولے۔
بیگم! تیار ہو جائو بھئی بازار نہیں جانا ننھی کے کپڑے لینے کے لیے۔
مگر۔۔۔ ننھی کی امی نے کچھ کہنا چاہا۔
میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔مگر پہلے آپ تیار ہو جائیں پھر میں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں۔ ابو بولے۔
ننھی بھی بہت خوش تھی وہ جھٹ سے بازار جانے کے لیے تیار ہو گئی اس نے اپنی گڑیا کو بھی خوب تیار کیا تھا۔
راستے میں ابو نے بتایا کہ رضوان ان کے ہوٹل کے سامنے والی دکان پرکام کرتا تھا۔وہ ساتھ ساتھ پڑھتا بھی تھا۔اس نے ان کے ساتھ قریبی دکان پر کمیٹی ڈال رکھی تھی۔وہ انٹر کرنے کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔جب اس کا داخلہ یونیورسٹی میں ہوا تو قرعہ اندازی میں میری کمیٹی نکلی تھی۔مجھے پیسوں کی زیادہ ضرورت نہ تھی ۔وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کمیٹی کی رقم بطور ادھار دینے کی درخواست کی۔بس یہ وہی رقم ہے جو آج اس نے مجھے لوٹائی ہے اور ہم شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں۔ابو کا لہجہ خوشی سے بھرپور تھا۔
ابو! آپ نے انکل خیر دین کو کتنی رقم دی تھی؟ اچانک ننھی نے سوال کیا۔
’’تیس ہزار روپے۔۔۔۔کیوں۔۔۔‘‘
اور آج آپ کو کتنی رقم ملی ؟
ایک لاکھ روپے۔۔۔۔ابو ننھی کے لگاتار سوالات پر حیران تھے۔
بس پھر اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔۔۔۔آپ نے دس ہزار انکل خیر دین کے علاج کے لیے دئیے اور اللہ نے آج آپ کو اس کا دس گنا عطا کیا ہے۔ننھی معصومیت سے بولی۔امی ابو اس کی اس بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

کاشف بشیر کاشف کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ آپ نے 1992 میں بچوں کے لیے لکھنے کا آغاز کیا۔ ریڈیو پاکستان سے بطور صداکار منسلک رہے۔ آج کل جواں ادب کی ادارت کے علاوہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here