راحت عائشہ
’’تمہیں نہیں معلوم… میری امی بہت ظالم ہیں…‘‘ سدرہ کی بات پر میں نے اسے چونک کر دیکھا۔ وہ انوشہ سے مخاطب تھی۔
’’لیکن میرا نہیں خیال… تم ایسا کیوں سمجھتے ہو؟‘‘ انوشہ نے پوچھا۔
’’وہ بہت اچھی ہیں، میرا خیال رکھتی ہیں لیکن وہ سب کچھ وہ چاہتی ہیں جو ان کی مرضی ہو…‘‘ سدرہ نے جواب دیا۔
’’مثلاً؟‘‘
’’مثلاً یہ کہ وہ ہمیں اپنی مرضی کا کھانا کھلانا چاہتی ہیں، اپنی مرضی کے کپڑے پہنانا چاہتی ہیں اور ہمارے روز مرہ کے اوقات تک ان کی پسند کے طے کیے ہوئے ہیں۔‘‘ سدرہ کی بات پر مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی جسے میں نے بمشکل چھپایا۔
’’سنو…! تم اتنے اچھے کپڑے تو پہنتی ہو… یہ کیا تمہیں پسند نہیں ہوتے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں! اچھے تو لگتے ہیں…‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔
’’اور کھانے؟‘‘
’’وہ بھی اچھے تو ہوتے ہیں…‘‘
’’تو پھر…؟‘‘ انوشہ نے حیرت سے آنکھیں نکالیں۔
’’پھر بھی… بس… تم نہیں سمجھو گی…‘‘ سدرہ نے کندھے اچکائے۔
’’کیوں نہیں سمجھوں گی… لیکن جب تمہاری بات ہی فضول ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے؟؟‘‘ انوشہ نے بدلہ چکایا۔
ہم تینوں نیم کے گھنے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔
’’چلو گھر چلیں…؟‘‘ انوشہ نے پوچھا…
’’نہیں ابھی کچھ دیر بعد… کتنا اچھا لگ رہا ہے نا یہاں…‘‘ سامنے ہی کھیتوں میں کپاس کی فصل چُنی جا رہی تھی۔ گاؤں اور قریبی گاؤں کی کچھ عورتیں بھی اس موقع پر آ جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنے دوپٹےکچھ اس انداز سے باندھ رکھے تھے کہ ایک جھولی سی بن گئی تھی ۔عورتیںکپاس کے سفید پھول توڑ توڑ کر اس میں جمع کرتی جارہی تھیں…ہمارے لیے یہ منظر نیا تھا نہ انوکھا۔ بچپن سے ہی دیکھتے آئے تھے۔ لیکن سدرہ کو یہ بہت دلچسپ لگتا تھا۔ وہ میری خالہ کی بیٹی تھی جو شہر میں رہتی تھیں جبکہ انوشہ ہم دونوں کے اکلوتے ماموں کی دختر… ہماری دوستی بچپن سے یونہی چلی آ رہی تھی۔ سدرہ کی امی اسماء خالہ میری بڑی خالہ تھیں۔
’’چلو نا… امی ناراض ہوں گی… کافی دیر ہوچکی ہے۔‘‘ انوشہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اتنا اچھا تو لگ رہا تھا یہاں… گھر جاؤ تو پھر وہی امی کے سوالات و ہدایات… نماز پڑھی؟ ہوم ورک کرو، سو جاؤ…‘‘ سدرہ نے برا سا منہ بنایا۔
’’اوہ… ظہر کا وقت ختم ہونے والا ہوگا… چلو نماز تو پڑھی ہی نہیں…‘‘ مجھے اچانک یادآیا… میں بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اس مرتبہ ہماری فصلیں کچھ صحیح نہیں رہی ہیں…‘‘
ماموں جان اور نانا صحن میں چارپائی پر بیٹھے باتوں میں مصروف تھے ۔ سدرہ نے سب کے آگے چائے پیش کی…
’’واہ… جیتی رہ میری دھیے…‘‘ نانا جان نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
بھائی فضل نے کہا بھی تھا یہ بیج اچھا نہیں… لیکن اس وقت دھیان ہی نہیں دیا… اب افسوس ہورہا ہے۔‘‘ ماموں جان کے چہرے پر افسردگی چھائی ہوئی تھی۔
’’چلیں اللہ خیر کرے گا…‘‘ اسماء خالہ نے انہیں تسلی دی۔
جو بویا ہے وہی کاٹنا پڑے گا… نانا مسکرائے۔
’’ارے…! یہ جملہ تو میری ٹیچر نے لکھوایا تھا۔ ‘‘ سدرہ اچھل پڑی۔
’’کیا؟‘‘ نانا نے پوچھا۔
’’یہی… کہ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے …‘‘ سدرہ نے کہا:
’’ہاں… یہی تو بات ہے… سب ہی جانتے ہیں کہ ہم جو بوتے ہیں وہی وہی پھل ہمیں ملتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نادان یہ سوچتے ہیں کہ بیج ہم جیسا بھی ڈالیں پھل ہمیں بس اعلیٰ ترین ہی ملنا چاہیے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ نانا جان نے کہا اور پھر ماموں جان سے باتوں میں مصروف ہوگئے لیکن سدرہ کے سوچنے کے لیے کچھ باتیں ضرور چھوڑ گئے تھے۔
……٭……
آج آپ نے کون کون سے اچھے کام کیے ؟ ‘‘ میں اور سدرہ جب امی کے پاس لیٹی توامی نے حسب معمول اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے سوال کیا۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ سدرہ انگلیوں پر اچھے کام یاد کرکے بتانے لگی۔
’’اچھا ایک بات بتاؤ… آ پ کو کیا کبھی یہ محسوس ہتا ہے کہ آپ کے والدین بہت ظالم ہیں؟‘‘ امی نے سوال کیا۔
’’آپ سے کس نے کہا؟‘‘ اسے انوشہ اور عائشہ پر غصہ آیا ۔
’’کسی نے نہیں… میں تو آپ سے یونہی پوچھ رہی ہوں۔‘‘
’’جی کبھی کبھی… سدہ صاف گوئی سے بولی۔ اس کی نظریں نیچے تھیں۔
امی مسکرا دیں۔’’ دیکھو سدرہ بہت سی باتیں ایسی ایسی ہوتی ہیں جو وقتی طور پر بہت اچھی لگتی ہیں لیکن اگر وہ خدا کی نظر میں پسندیدہ نہیں تو ان کا کبھی کسی طور ہونا ہمارے لیے فائدہ مند نہیں ہوسکتا۔ والدین کبھی بھی اپنی اولاد کے لیے برا نہیں چاہتے۔ میں بھی آپ کو ایسا کامیاب انسان دیکھنا چاہتی ہوں جو دنیا وآخر دونوں جگہ کامیاب ہو۔
’’ایک بات پوچھوں؟‘‘ سدرہ نے سوال کیا۔
’’جی ضرور پوچھو۔‘‘
’’امی اگر کوئی والدین برا نہیں چاہتے تو سب والدین تو ایسا نہیں کرتے جیسا آپ کرتی ہیں۔‘‘ امی مسکرانے لگیں۔
’’مثلاً کیسا؟‘‘
’’جیسے کپڑے لیلی اور بیلا پہنتی ہیں آپ مجھے منع کرتی ہیں اور ان کی امی ان کے لیے خرید کر لاتی ہیں۔‘‘ سدرہ نے پڑوس کی بچیوں کا حوالہ دیا۔
’’اور؟‘‘
’’اور یہ کہ آپ ہمیں کولڈ ڈرنک نہیں پینے دیتیں اور بازار سے بہت کم کچھ منگوا کر کھلاتی ہیں‘‘۔ بہت سے شکوے سدرہ کے دماغ میں مچلتے ہوئے زبان تک آ گئے۔
امی توجہ سے سدرہ کی بات سنتی رہیں۔
’’تم میری بہت اچھی بیٹی ہو…‘‘ امی نے اس کا ماتھا چوما۔
’’آپﷺ کا فرمان ہے۔ ’’الدنیا مزرعۃ الآخرۃ‘‘ ۔۔۔ ( دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔)
’’تم نے اکثر کھیت کھلیان دیکھے ہیں نا؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’جی… بہت مرتبہ…‘‘ سدرہ نے سر ہلایا۔
’’سدرہ! ہمارے نبیؐ نے دنیا کی مثال بھی ایک کھیتی کی طرح دی ہے۔ جیسے بیج ہم بوئیںگے اور اپنے کھیت کی دیکھ بھال کریں گے آخرت میں ہمیں اسی کے مطابق پھل (بدلہ) دیا جائے گا۔ اور اس کھیت کی دیکھ بھال کا طریقہ ہمیں ہمارے پیارے نبی ﷺ سمجھا گئے ہیں کہ ہمیں دنیا میں کس طرح رہنا ہے۔ کیا تم ایسے کپڑے پہننا پسند کروگی جس طرح کے کپڑے پہننے سے آپؐ نے منع فرمایا ہے؟‘‘
سدرہ نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’میں آپ کو وہی راستہ دکھانا چاہتی ہوں وہی طریقہ سکھانا چاہتی ہوں جس سے ہماری آخرت بہتر ہوسکے… دنیا تو خود بخود ہی بہتر ہوجاتی ہے کہ آپ کسی کا دل نہیں دکھاتے، دوسروں کا خیال کرتے ہیں اور حقوق العباد کھیت میں دیے جانے والے پانی اور کھاد کی طرح ہیں۔ جن کے بغیر آپ کی فصل اگ ہی نہیں سکتی۔‘‘
’’سوری امی… میں بہت کچھ غلط سمجھتی رہی…‘‘ سدرہ کے لہجے میں ندامت تھی۔
’’شاباش…! اچھی بات یہ ہے کہ اب آپ سمجھدار ہوگئی ہیں۔‘‘ امی نے محبت سے کہا۔ سدرہ نے سونے کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔ وہ سوچ رہی تھی اس کی امی کتنی اچھی ہیں
……٭……