درد مند درخت —– روبنسن سیموئیل گل

0
129

عصر حاضر سے بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی کا انتخاب

’’اب میرا بچنا محال ہے‘‘ چیڑ کے بلند و بالا درخت نے بڑی مایوسی اور نااُمیدی سے یہ الفاظ ادا کیے۔
اس کے قریب ہی ایک درمیانے درجے والے درخت نے تسلی دیتے ہوئے کہا : ’’بزرگو! فکر نہ کریں،آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔
بلند و بالا چیڑ کا درخت جو اردگرد لگے تمام درختوں میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ تھا ،ایک بار پھر رنجیدہ ہو کر بولا:’’نہیںبھائی ،نہیں اب ان تسلیوں کا کوئی فائدہ نہیں ،پانی سر سے گزر چکا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر اس کی شاخ پر بیٹھا ہو ا کالا کلوٹا پہاڑی کوّا اپنی بھونڈی سی آواز میں کائیں کائیں کرتا ہوا بولا: بزرگو پانی آپ کے سر سے کیسے گُزر سکتا ہے ؟ آپ تو اردگرد کے تمام درختوں میں سب سے زیادہ اونچے قد کے ہیں۔پھر زمین کی جانب نگاہ ڈالتے ہوئے بولا:’’ابھی تو پانی آپ کی جڑوں کو ہی چھو رہا ہے‘‘
بزرگ درخت اس بات پر ہلکا سا مسکرایا،مگر اس کی مسکراہٹ میں زندگی نہ تھی۔وہ کہنے لگا:’’یہی تو بات ہے کہ پانی میری جڑوں تک پہنچ گیا ہے اور اُس کا تیز ریلا ہر لمحہ وہاں کی مٹی کو اپنے ساتھ بہائے لے جا رہا ہے۔تم دیکھ نہیں رہے کہ اب تو میری جڑیں بھی نظر آنے لگی ہیں۔‘‘
حقیقت بھی یہی تھی کہ ہر گُزرنے والا دن اُسے کم زور کرتا چلا جا رہا تھا۔اب توبس تیزہوا کا ایک جھونکا یا آندھی اس قدیم درخت کو گرانے کے لیے کافی تھی۔اپنی شاخ پر بیٹھے کوّے کو مخاطب کر کے چیڑ کے درخت نے ایک بار پھر اُداسی سے کہا:’’کوّے میاں ! مجھے اپنے برباد ہونے کا اتنا دُکھ نہیں ،جتنا اس بات کا کہ اتنی محنت سے بنائے ہوئے تمھارے مضبوط گھونسلے کا کیا بنے گا؟۔۔۔آخر تم کہاں جائو گے؟‘‘
فکر کیوں کرتے ہیں آپ! خُدا میرا بھی کوئی بندوبست کر ہی دے گا۔ ہمیں بس آپ کی فکر ہے اور دُعا کرتے ہیں کہ آپ کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رہے۔
چیڑ کا یہ درخت ایک پہاڑی ڈھلان پر تھا،جس کے نیچے ایک خوبصورت ندی بہتی تھی۔کچھ عرصہ پہلے پہاڑٰ ی کا کچھ حصہ گر جانے کی وجہ سے ندی کے راستے میں رکاوٹ آگئی اور پانی کی سطح اُس طرف بلند ہونے لگی،جس طرف درخت تھے۔ایک دن ایسا آیا جب موسلا دھار بارش ہوئی ،تمام پرندے اور جانور دَبکے اور سہمے بیٹھے تھے۔چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی پانی سے بچنے کے لیے اِدھر ادھر پناہ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ندی تو اب دریا بنی ہوئی تھی اور پانی کا تیز ریلا اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز بہائے لے جا رہا تھا۔ندی کا پاٹ تیز پانی کے بہائو سے چوڑا ہوتا گیا۔
ایک روز رات بھرموسلا دھار بارش ہوتی رہی ۔وہ ایک خوفناک ،تاریک اور بھیانک رات تھی۔رات تو جیسے تیسے گُزر گئی ،مگر چیڑ کا درخت بہت کم زور ہو گیا تھا۔گیدڑ،لومڑ، خرگوش، بندر،بھیڑیے،جنگلی بِلّے اکثر درخت کے ساتھ بہتی ندی کے کنارے پانی پینے آتے ،کچھ دیر درخت سے بھی باتیں کرتے،اُسے تسلی دیتے اور اپنی راہ لیتے ۔اکثر جانور حسرت سے ندی کے دوسرے کنارے کو دیکھتے ۔اُن میں سے کئی جانوروں کے دوست ندی کے پار والے جنگل میں رہتے تھے۔ندی کا پاٹ چوڑا ہونے سے پہلے وہ ندی پار کر کے اپنے دوستوں سے ملنے جاتے رہتے تھے مگر پاٹ کی چوڑائی اور ندی کی گہرائی میں اضافہ ہونے سے اب جانوروں کے لیے ندی عبور کرنا مشکل ہو چکا تھا۔ایک خرگوش نے کوشش بھی مگر تیز پانی کے ریلے میں بہ گیا تھا ۔بے چارے کی لاش بھی نہ مل سکی۔اکثر جانور اپنا دُکھ چیڑ کے درخت کو سُناتے۔اب تو بے چارا چیڑ کا درخت بھی چند دن کا ہی مہمان تھا۔
دوسرے دن پھر تند و تیز ہوائیں چلنے لگیں۔رات ہوئی تو چاند گھنے سیاہ بادلوں کے پیچھے چُھپ گیا۔ ایسی تاریکی اور سناٹے میں پرندے اور جانور بھی سہمے بیٹھے تھے۔وقفے وقفے سے آسمان پر بجلی چمکتی اور سارے ماحول کو روشن کر دیتی تھی۔طوفانی بارش نے چیڑ کے درخت کی باقی رہ جانے والی مٹی کو بھی اُس کے قدموں سے پوری طرح کھینچ نکالا۔ اب اُس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ایک لمحہ بھی مزید اپنی جگہ پر قائم رہ سکے۔اچانک اُس کی مایوسی اور نااُمیدی ،امید اور مُسرت میں بدل گئی۔اُس کے چہرے پر خوشی اور فتح مندی نظر آنے لگی۔نہ جانے کون سا خیال اس کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے آیا،جس نے اُسے پُر امید اور جوشیلا بنا ڈالا۔وہ دوسروں کی مدد کرنا چاہتا تھا،اسی لیے اللہ تعالیٰ کا فضل اور شفقت بھی اس کے ساتھ تھی۔اب وہ خوشی سے سرشار کوشش کر رہا تھا کہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو جائے۔اُس نے بھر پور زور لگایا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آندھی بھی اسی سمت میں چل رہی تھی جس میں اُس کا، بلکہ سب کا فائدہ تھا۔آخر رات کے کسی پہر ایک زور دار دھماکہ ہوا اور وہ بلند و بالا چیڑ کا درخت گر پڑا۔درخت نے بڑی سمجھداری سے پہلے ہی تمام پرندوں کو اپنی شاخوں سے دور منتقل ہونے کا کہہ دیا تھا۔
صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔گھنے سیاہ بادل چھٹ کر چھپ چکے تھے۔گہرا نیلا آسمان خوب صورت منظر پیش کر رہا تھا اور وہ جگہ خالی خالی تھی جہاں وہ گھنا پرانا چیڑ کا درخت کبھی بڑی شان و شوکت سے آسمان کی بلندیوں کو چھوتا تھا۔
جنگل کے سارے جانور خوش تھے۔ پرندے بھی خوشی سے چہچہا رہے تھے۔ درخت اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا۔وہ آندھی مناسب سمت اور اپنی کوشش کے باعث اس زاویے سے گرا تھا کہ اُس کا آسمان کو چھوتا ہوا سر اب چوڑی ندی کے دوسرے کنار ے تک پہنچ چکا تھا۔اس طرح ندی کی چوڑائی کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہو جانے والا جنگل اس چیڑ کے درخت کے قدرتی پُل کی وجہ پھر ایک ہو گیا تھا۔سارے جانور اب آسانی سے آر پار آ جا سکتے تھے۔چیڑ کے درخت نے اپنا وجود کھویا نہیں تھا بلکہ اس نے اپنی موجودگی کو مزید نمایاں کر دیا تھا۔

٭٭٭٭٭

روبنسن سموئیل گل کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔آپ چرچ سے بطور پادری منسلک ہیں۔ بچوں کے لیے اخلاقی، تفریحی کہانیاں تحریر کرتے ہیں۔ بچوں کے ادب میں بہت سی ناقابل فراموش کہانیاں تحریر کر کے ملکی سطح پر ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔

 

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here