بولتا درخت —— جمیل قدوائی

0
120

ٹن۔ٹن۔ٹن۔ٹن….ٹن ٹن

اسکول میں چھٹی کا گھنٹہ بجا۔استادوں نے اپنی اپنی جماعت کے بچوں کوقطار میں کھڑے ہونے کاحکم د یا۔بچوں نے گھنٹہ کی آواز کے ساتھ ساتھ استادوں کے حکم کوانتہائی خوشی سے سنااورجھٹ پٹ منے منے ہاتھوں اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکاکر لائنوں میں جالگے۔ قومی ترانہ گایاگیااوربچے پرنسپل کوخداحافظ کہہ کرقطار درقطار اسکول سے باہرنکلنے لگے۔

پھاٹک سے باہرکچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ۔دیہی بڑے۔ مونگ پھلی ۔ امرود کے کچالو۔فالسے ‘‘ کی آوازیں لگارہے ہیں۔ بچے ان کے ٹھیلوں پر ٹوٹ پڑے۔ننھا بختیاربھی ایک ہاتھ سے اپنابستہ،دوسرے سے نیکرسنبھالے ایک ٹھیلے کے پاس رک گیا۔ جیب سے اکنی نکالی اورٹھیلے والے سے انگلی کے اشارے سے کہا ’’’ایک آنہ کے فالسے دے دو۔‘

فالسے والے نے جولہک لہک کرآواز لگانے میں مگن تھا بختیارکے ہاتھ سے اکنی لے اپنی گلک میں ڈالی اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیامیں فالسے ڈالے۔ ان پرنمک چھڑکا۔ دوچار دفعہ پڑیا کواچھالااور بختیارکو’’لومنے‘‘ کہہ کرپکڑادی اور پھرگانے میں مصروف ہو گیا۔ وہ گارہاتھا:۔

’’آؤبچو! کھاؤ میرے کالے کالے،اودے اودے ،میٹھے میٹھے فالسے۔‘‘

‘‘آؤبچو! کھاؤ میرے کالے کالے۔۔۔‘‘

بختیارکو اس کی امی اسکول کے لئے ایک آنہ روز دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے توکوئی صاف ستھری چیز گھرپرلاکرکھالے ورنہ پیسے جمع کرکے اپنے لئے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خریدلے۔ ننھا بختیار اسی اکنی کے فالسے کی پڑیا مٹھی میں دباگھرکی طرف چل دیا۔ گھرجاکر کتابوں کابستہ مقررہ جگہ پررکھا اور فالسوں کی پڑیاں ماں کودی، اپنی یو نیفارم اورجوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھوکرکھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے ماں سے کہا ’’امی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنی مزیدار ہیں نا؟ امی نے کہا ’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھرسےنمک چھڑکا۔ بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے۔ نہ جانے صاف تھے یا نہیں۔ کھاناکھاکر میں بھی دوچار کھالوں گی، باقی تم کھانا۔فالسے بہت فائدہ مندہوتے ہیں صحت کے لئے۔ مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہار ا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیردینا۔ تمہارے گھر میں فالسے ہی فالسے ہوجائیں گے۔‘‘

بختیارکھانا ختم کرکے فالسے کھاتا جائے اورگٹھلیاں جمع کرتا جائے اورپھراس نےوہ گٹھلیاں اپنی کیاری میں ڈال دیں۔

کچھ دنوں بعدایک ننھا ساپودا زمین سے نکلا۔ ننھا بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑکر امی کو پکڑکرلایا۔’’امی، دیکھئے میرے فالسے کا پودا نکلا۔‘‘ اسے دھیان سے پانی دیا کرو۔ کبھی کبھی زمین کی گڑائی کرتے رہا کرو۔ میں کھاداورمیٹھی مٹی منگاکر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھرتمہار ا یہ ننھا پودا جلدی سے بڑا اورپھل داردرخت بن جائے گا۔‘‘

ننھا بختیار ہرروزاسکول سے آکردوپہر کوآرام کرنے کے بعد اپنے دماغ میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرتا اور فالسے کی پتیوں کومحبت سے چومتا اور اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔

ایک روزبختیار نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان پھولوں کاذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔ دوستوں کابھی دیکھنے کو جی چاہا۔ وہ بختیار کے ساتھ اس کے گھرآئے اورپھول دیکھ کرسب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ پھول توڑکر گھرلے جائیں اور خوش ہوں مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آوازآئی جیسے کوئی دردبھری آواز سے کہہ رہا ہو’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

بچوں نے ڈرکے مارے اپنے ہاتھ پیچھے کرلئے اور ادھرادھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہاہو۔مگر جب انہیں کوئی نظرنہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھروہی آواز آئی۔ ’’ہائے ظالم ، مارڈالا‘‘ اب توسب بچے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کوبھاگے۔ بچارا بختیار اپنے گھر کے اندربھاگا اورجاکر اپنی امی کو سب حال بتادیا۔

امی باہرآئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جوبچوں کوڈرارہاہے۔ امی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کواپنے پھولوں کے توڑے جانے کادرد ہے۔ انہو ں نے بختیار کوسمجھایا ’’بیٹایہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔بلکہ درخت کہہ رہاہے کہ میرے پھول نہ توڑو۔ان کے توڑنے سے مجھے دکھ ہوگا، کیونکہ پھولوں سے فالسے بنیں گے اوراگرانہیں توڑلوگے تو میں پھول دار کیسے بنوں گا۔‘‘

بختیار کوفالسے کے درخت سے بہت سے محبت تھی۔ فورا ایک اچھے بچے کی طرح اپنی ماں کی بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے ان پھولوں کوہاتھ نہ لگایا۔

تھوڑے دنوں بعداس درخت میں ہری ہری گٹھلیاں سی لگی ہوئی دیکھنے میں آئیں تو بختیار سمجھا کہ یہی فالسے ہیں۔ اس نے اسکول میں اپنے دوستوں سے بتایاکہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آرہے ہیں۔ اس کے دوستوں کووہ پچھلابھوت کا واقعہ کچھ یاد توتھا مگر فالسے کھانے کے شوق میں اسکول سے واپسی پر وہ پھربخْتیار کے ساتھ اس کے گھرپرآہی دھمکے۔ہاتھ بڑھاکر فالسے توڑناہی چاہتے تھے کہ پھروہی دردناک آوازسنائی دی ’’ہائے ظالم، مارڈالا‘‘ اوہو! بچوں کو اب پوری طرح یقین ہوگیا کہ بختیار کے فالسے کا درخت بھوتوں کااڈا ہے۔ بھاگے سب کے سب اوراپنے اپنے گھرجاکر ہی دم لیا۔ ننھا بختیار یہ تماشہ دیکھ کرباہر آیا ’’امی سچ کہہ رہا ہوں فالسے کے درخت کے اندربھوت رہتاہے۔ ابھی پھر اس میں سے آواز آئی تھی۔‘‘ امی اپنی ہنسی روکتی جائیں اورپتوں کوہٹاکر دیکھناچاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔امی کاہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آگئیں۔ پھراس میں سے آواز آئی ’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

امی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں ۔’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کاکچا پھل توڑاجائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اس لئے یہ بچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘’ ننھا بختیار کچھ سمجھاکچھ نہ سمجھا، مگر چب ضرورہوگیا۔

کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے بختیار نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آرہا ہے۔ ہری ہری پیتو ں کی آٓڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اورپھلوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ بس اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اورخودبھی کھاؤں گا۔

اسکول سے واپسی پروہ اپنے دوستوں کوساتھ لایا۔ بچے کہنے لگے ’’بھئی تمہارا درخت توبھوتوں کا اڈا ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے ؟ ‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھاکے فالسے توڑنے لگے، مگراس باردرخت میں سے بڑی پیاربھری دھیمی دھیمی آواز آرہی تھی ’’آؤ بچو! کھاؤمیرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔ آؤ بچو…….‘‘ اورڈالیاں تھیں کہ بچوں کے آگے محبت سے بڑھی آتی تھیں، جھکی جاتی تھیں۔

اس روزسب بچوں اورننھے بختیارنے خوب مزے لے لے کر اپنے درخت سے فالسے توڑتوڑکرکھائے اور تھوڑے تھوڑے فالسے جیبوں میں بھرکراپنے اپنے گھر لے گئے۔ راستہ بھرایک دوسرے سے کہتے تھے ’’بختیار کادرخت بولتا درخت ہے، مگرہے بڑےکام کا، ہم بھی اس کے فالسے کے بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔‘‘

جلیل قدوائی 16 مارچ 1904 کو اناؤ (اودھ) میں پیدا ہوئے ۔ علیگڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر مقرر ہوئے۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات ونشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور وزارت اطلاعات ونشریات میں کئی اعلی عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔

جلیل قدوائی نے شاعری کے ساتھ افسانے ، تبصرے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے اور کئی شعرا کا کلام مرتب کیا۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں : نقش ونگار، نوائے سینہ تاب ، خاکستر پروانہ ، قطرات شبنم، (شعری مجموعے) سیر گل ، اصنام خیالی،(افسانوی مجموعے) دیوان میر محمد بیدار ، انتخاب شعرائے بدنام ، کلام غالب نسخۂ قدوائی (مرتب) تذکرے اور تبصرے (تنقید) - یکم فروری 1996 میں اسلام آباد میں انتقال ہوا۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here