بچوں کے ادب کا گمنام ادیب ——- گلشن کمار پروانہ
تحریر: اظہرعباس، کوئٹہ
بلوچستان کے ادبی منظر نامے میں ایک نام گلشن کمار پروانہ کا ہوا کرتا تھا۔ گلشن کمار پروانہ وہ گوہر نایاب ہے جو ادب تخلیق کرتے کرتے کہیں قعرگمنامی میں کھو چکا ہے۔ وہ کبھی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور تخلیقی کہانیوں کے ذریعے روشنی بن کر چمکتا تھا، لوگ اسے پڑھتے تھے، اس کی کہانیوں کا انتظار کرتے تھے۔مگر رہے نام اللہ کا…گلشن کمار پروانہ ادب کے گلشن سے کنارہ کش ہو چکا ہے. میرا ماننا ہے کہ کچھ آوازیں غیر واضح رہتی ہیں پھر بھی لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بلوچستان کےادب میں ایسا ہی پوشیدہ نام گلشن کمار پروانہ کا ہے۔ جو بلوچستان کےقارئین پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے۔ایک دور تھا کہ گلشن کمار پروانہ کا نام بلوچستان کے ادبی حلقوں میں گونجا کرتا تھا. نجانے کیوں اچانک وہ ادبی شخصیت گمنامی کی نذر ہو گئی۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔
چند رو قبل ایک محفل میں جب ادیبوں سے پوچھا گیا کہ اپنے پسندیدہ ادیب کا نام بتائیں، جس نے آپ کو متاثر بھی کیا ہو اور آپ نے اسے دیکھ کر لکھنے کا آغاز کیا ہو۔ ہم بھی اس محفل میں موجود تھے۔ کسی نے کہا کہ وہ مرزا ادیب سے متاثر ہو کر اس جانب آیا ہے ۔ کسی نے اشتیاق احمد کا نام لیا کہ ان کے ناول وجہ تخلیق بنے۔ کوئی ابن صفی کو اپنی لیے مشعل راہ قرار دے رہا تھا تو مسعود احمد برکاتی کے سحر میں گرفتار تھا.کسی نے اے. حمید کا نام لیا .یوں سب نے ان بڑے ادیبوں کو اپنی تخلیقی صلاحیت کا باعث قرار دیا۔ میرے لیے اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں تھا۔ کیونکہ میں نے اپنے بچپن میں ان میں سے کسی کو نہیں پڑھا تھا۔بلکہ میں تو اپنے بچپن میں ان ناموں سے آشنا بھی نہیں تھا جس کی وجہ شاید مجھے وہ ادبی ماحول ہی میسر نہیں تھا جہاں کتاب اور رسائل باآسانی دستیاب ہوتے۔ مجھے تو اپنے اسکول دور کا صرف ایک میگزین یاد ہے جو اسلامیہ ہائی اسکول کوئٹہ سے سالانہ شائع ہوتا تھا. چھوٹا علی گڑھ …جو ہمیں زبردستی خریدنے کی تلقین کی جاتی اس کے علاوہ بچوں کا جنگ ، بچوں کا مشرق ( ہفتہ وار ) سے ہی شناسائی تھی.اس کی وجہ بھی شاید یہ تھی کہ گھر میں اخبار لازمی آتا تھا۔ جسے ہم پڑھتے تھے۔ ادبی صفحات میں جو نام جو باقاعدگی سے لکھا کرتے تھے ان میں سے ایک نام گلشن کمار پروانہ ، دوسرا نام رقیہ آرزو اور تیسرا تیجا رام جیکی کا ہوا کرتا تھا۔ نام تو اور بھی تھے مگر تواتر سے لکھنے والوں میں یہ نام نمایاں تھے۔
جب ہم سے پسندیدہ ادیب کا نام پوچھا گیا تو ہم نے برملا گلشن کمار پروانہ کا نام بطور پسندیدہ ادیب لیا، تو حیرت ہوئی کہ پوری محفل میں کوئی بھی اس نام سے واقف نہیں تھا۔بطور شاگرد ادیب یہ ہماری بھی نالائقی سمجھیں کہ ہم ان کو متعارف کرانے اور ان کی تحاریر یکجا کرنے میں ناکام رہے۔ اگرچہ ہم کبھی گلشن کمار پروانہ سے نہیں ملے اور نہ ہی کبھی قلمی دوستی رکھی اس وقت بس ان کی کہانیاں اور مضامین پڑھا کرتے تھے۔ ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ہم 1999 سے 2013 تک ادب اطفال سے نہ صرف دور رہے بلکہ 2010 سے کوئٹہ چھوڑ کر لاہور منتقل ہو چکے تھے۔
اس دوران بلوچستان کے پرسکون ضلع مستونگ میں پیدا ہونے والا اور پکوڑوں کی ریڑھی لگانے والا ادبی چراغ ڈھاڈر بلوچستان منتقل ہو چکا تھا۔ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال گلشن کمار کی کہانیاں اور مضامین بچوں کے ادبی صفحات کی زینت بنتے تھے۔ اس کی کہانیاں اس وقت کے قاری کے دلوں میں آج بھی موجود ہوں گی جو خوش قسمتی سے اس کے تحریر کردہ الفاظ سے متاثر ہوتے تھے۔ ادبی منظر نامے سے اس کا یوں غائب ہو جانا اور اس کی عدم موجودگی کو محسوس نہ کرنا افسوسناک ہے۔ اگرچہ اس کی ادبی میراث اس کی لکھی گئی کہانیوں اور مضامین کی صورت میں نظر آتی ہے مگر افسوس کہ وہ ایک ریکارڈ کی صورت موجود نہیں۔ گلشن کمار کو صرف ایک مصنف کے طور پر پہچاننا ضروری ہے۔ ان کے ادبی زندگی کا سفر، جس میں سادگی اور عزم کا نشان تھا۔ جو بلوچستان کے نوجوان کی روح کا آئینہ دار ہے۔یہ ان کی ادبی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود بھی گلشن کمار پروانہ اس دور کے قارئین کے دلوں میں گونجتا رہتا ہے،اس کا اثر اخبارات کے صفحات سے ماورا ہے اور ہماری ثقافتی یادداشت کے تانے بانے میں چھپ جاتا ہے۔ شاید گلشن کمار کے گمشدہ ہونے کی ایک وجہ اس کا ہندو مذہب سے تعلق بھی ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اسے کبھی تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئ۔
ادب اطفال کے دائروں سے باہر، گلشن کمار کی زندگی سادگی کی کہانی سناتی ہے۔ وہ ایک چھوٹی سی ریڑھی جو وہ مستونگ بازار میں لگاتا تھا غم روز گار میں گرفتار گلشن کمار جہاں پکوڑے بیچ کر گھر چلاتا تھاوہیں ادب بھی تخلیق کرتا تھا۔ نہ جانے وہ کون سے حالات ہونگے جس کے باعث اس نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر ڈھاڈر ہجرت کی ہوگی۔ ڈھاڈر منتقل ہو جانے کے بعد وہ کیسے حالات میں زندگی بسر کرتا ہو گا۔ اور پھر وہ ادب کی دنیا سے بھی غائب ہو گیا۔ افسوس کسی نے اس کی کمی محسوس ہی نہیں کی، ممکن ہے کہ کسی نے کمی تو محسوس کی ہو مگر اظہار نہ کیا ہو۔
میں گلشن کمار پروانہ کو ایک ان دیکھے استاد کی حیثیت سے خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش اس لیے کر رہا ہوں کہ میں نے اپنے بچپن میں اس کا تخلیق کردہ ادب پڑھا ہے، اور چاہتا ہوں کہ بلوچستان میں بسنے والے ادیب اور طلبہ کوشش کریں کہ اس کے کام کو یکجا کیا جائے اور اس کی ادبی خدمات پر کالج یونیورسٹی کی سطح پر کوئی مقالہ لکھا جائے۔ گلشن کمار پروانہ کے ادبی خزانہ کو یکجا کر کے بلوچستان کا کوئی پبلشر کتابی صورت میں شائع کرے۔ بچوں کا جنگ کوئٹہ، اخبار جہاں، بچوں کا مشرق کوئٹہ، ماہنامہ خوشبو کوئٹہ ،بچوں کا اخبار اور کہکشاں کے شماروں کو تلاش کیا جائے ان میں سے گلشن کمار پروانہ کی تحاریر کو تلاش کیا جائے ان کے بچوں سے رابطہ کیا جائے شاید غیر مطبوعہ ادب بھی مل جائے تو ان سب کو جمع کیا جائے۔ اور پھر شائع کرانے کا اہتمام کیا جائے۔ افضل مراد، شیخ فرید اور عبدالرشید آزاد اور اس کے اس وقت کے ہم عصر ادیبوں اور دوستوں سے رابطہ کیا جائے تاکہ وہ دھول میں کھو جانی والی تحاریر کو تلاش کرنے میں مدد کریں۔ عبدالرشید آزاد ، شیخ فرید کے کتب خانوں کے ریک میں بھی بہت کچھ چھپا پڑا ہو گا اس کو تلاش کیا جائے اور جمع کر کے اہتمام سے شائع کیا جائے۔ ایوب بلوچ صاحب سابقہ سیکٹری انفرمیشن بلوچستان کی بھی ایک لائبریری ہوا کرتی تھی..یقینآ اس خزانے سے بھی کچھ مل سکتا ہے۔ بلوچستان کی پبلک لائبریری کو کھنگالا جائے تو بہت کچھ مل جائے گا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ گلشن کمار پروانہ کی کہانیاں اور مضامین ریکارڈ میں محفوظ نہیں۔گلشن کمار پروانہ کی تحاریر کے حوالے سے پیارے دوست عبدالرشید آزاد نے ایک فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی تاکہ آگاہی حاصل کی جا سکے۔ ان کی پوسٹ پر آغا غریب شاہ انجم نے لکھا،” کیا وقت یاد دلایا ،مستونگ سے گلشن کمار پروانہ تیجا رام جیکی، سید احسان شاہ، تصدق حسین کوثر اور ہم لکھتے رہے بچوں کے صفحے کے لیے جنگ اور مشرق میں عالی سیدی صاحب سے بڑے احترام کا تعلق رہا ہے”۔
عبدالسلام بھائی نے لکھا کہ،” ان کے پاس اچھی خاصی کلکشن تھی گلشن کمار سمیت بہت سارے ادیبوں کی تحاریر موجود تھیں مگر افسوس 2010 کے سیلاب میں ان کی لائبریری بلوچستان میں آنے والے شدید سیلاب کے ریلے میں بہہ گئی اب یاداشت ہی باقی ہے اس کے پاس۔”
میں لاہور میں رہتے ہوے اکثر تقریبات میں اپنے اس گمنام استاد کو ذکر کرتا رہتا ہوں۔ اپنی دعاوں میں انھیں یاد رکھتا ہوں۔ کیونکہ میں آج جو کچھ بھی لکھتا ہوں ان میں گلشن کمار کی تحاریر کا بھی اثر ہے کیونکہ میں نے اپنے بچپن میں اسے پڑھا اور بہت عرصہ بعد لکھنا شروع کیا۔ بچوں کےادب کے استاد کے طور پر آج ان پر لکھتے ہوے سکون محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے گلشن کمار پروانہ کی تلاش میں شیخ فرید، عبدالرشید آزاد اور خالد بیدار وغیرہ سے رابطہ کیا اور سوشل میڈیا پر موجود ڈھاڈر کے پیجز کو بھی کھنگالا، مگر افسوس تلاش نہیں کر سکا۔ سوشل میڈیا سے تلاش میں عبدالرشید آزاد بھائی نے ایک نمبر دیا اس پر رابطہ کیا تو گلشن کمار تو مل گئے بہت خوشی ہوئی، مگر مایوسی اس وقت بڑھ گئی جب پتہ چلا کہ وہ گلشن کمار تو ہے مگر پروانہ نہیں ہے اور اس کا تعلق ڈھاڈر سے نہیں نوشکی سے ہے۔
گلشن کمار پروانہ کو خراج تحسین پیش کرنے پر فخر محسوس کر رہا ہوں۔ مگر بلوچستان کے ادبی منظر نامے میں ان کے اثرات کی گہرائی کو ایک کہانی کی صورت بیان کرنا ابھی باقی ہے۔ کیونکہ اس کی کہانیاں اس وقت کے قاری کے لئے نہیں اج کے قاری کے لئے ضروری ہیں یہ اسی صورت ممکن ہو سکے گا جب اسے ایک مقالے یا کتابی صورت میں جمع کیا جائے گا کیونکہ اب تک ہمارا ریکارڈ گلشن کمار پروانہ کی کہانیوں اور مضامین کی عدم موجودگی مطبوعہ الفاظ کی عارضی نوعیت کو واضع کرتی ہے۔ ہمیں ادبی کاموں کو محفوظ کرنے کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اور اسے اجاگر کرنے کے لئے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ گلشن کمار پروانہ جیسے مصنفین ہماری میراث ہیں اور ان کی تخلیقات کو آیندہ نسلوں تک پہنچانا ہوگا۔ ۔ ہمیں گلشن کمار پروانہ کی ابتدائی زندگی کو بھی جاننا ہے اور دنیا تھا پہنچانا ہے۔ وہ کن حالات میں اپنا روزگار بھی چلاتا رہا اور ادب بھی تخلیق کرتا رہا۔ اس کی زندگی اور کاموں کا سفر ادبی چمک، ذاتی تعلق اور ثقافتی اہمیت سے مالا مال داستان کو ظاہر کرنا ہے۔ یہاں اہم ذمہ داری بلوچی اکیڈمی، پشتو اکیڈمی، براہوی اکیڈمی اور ہزارہ ادبی اکیڈمی کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ادبی تنظیموں کی بھی ہے کہ وہ بحیثیت ادارہ ان کے کام کو یکجا کرے۔ شیخ فرید کی رائیٹر گلڈ (برگ) سے بڑے بڑے نام منسلک ہیں ان کے پاس فورم بھی ہے اور بجٹ بھی اور ادبی دوست بھی۔ وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔
گلشن کمار پروانہ ابھی حیات ہے آخری معلومات کے مطابق وہ ڈھاڈر میں رہایش پذیر ہے بلوچستان کے اس گمنام ادیب کی میراث کو محفوظ رکھنے کے لئے بلوچستان کے ادبی حلقوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کر پائے تو شاید تاریخ ہم سے سوال ضرور پوچھے گی۔
بلوچستان کے وسیع و عریض علاقے میں جہاں کہانیاں وقت کے ساتھ ساتھ ہوا میں سرگوشیوں کی طرح گونجتی ہیں، گلشن کمار پروانہ کی کہانیاں، کہانی سنانے کی لازوال طاقت کا ثبوت ہوں گی۔ اس ادبی استاد کی خدمات کو تسلیم کرنے ,عزت دینے اور ان کو امر کرنے کی التجا ہے جو تاریخ کے گوشوں میں چھپے ہوے ہیں
یہ حقیقت ہے کہ ادب تخلیق کرنے والا کبھی مرتا نہیں۔ وہ اپنی تخلیقات کی وجہ سے قاری کے دل میں زندہ رہتا ہے۔ واضع رہیے کہ گلشن کمار نے حالیہ چند سالوں میں کچھ نہیں لکھا ان کی خاموشی کے باوجود ان کی کہانیوں اور مضامین کا اثر لوگوں کےدلوں میں موجود ہے۔ جو خوش قسمتی سے گلشن کمار کی کہانیوں سے متاثر ہوے تھے ادبی منظر نامے سے غیر موجودگی کے باوجود بھی وہ لوگوں کے دلوں میں اپنی تخلیقات کی وجہ سے زندہ ہے۔ خدا را اسے تلاش کیجئے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔