اُمید کی کرن —- روبنسن سموئیل گِل

0
225

اُمید کی کرن

’’جی نعمان آپ کے ابو کیا کرتے ہیں ؟‘‘
’’مس میرے ابوآرمی آفسیر ہیں ۔‘‘ نعمان نے فخر کے ساتھ سینہ پھلاتے ہوئے کہا۔
تعارف کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے پانچویں کلاس کی ٹیچر نے روحیل سے پوچھا،
’’جی روحیل ، آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟‘‘
روحیل نے جھجکتے ہوئے جواب دیا، ’’جی ، جی ، وہ ، وہ…سکیورٹی گارڈ ہیں۔‘‘
اُس کی بات سن کر نعمان نے زور دار قہقہہ لگایا تو اُس کے دوست بھی ہنس پڑے۔ ٹیچر نے سب کو ڈانٹتے ہوئے کہا،
’’خبردار ، چپ ہو جائیں، بھلا اِس میں مذاق اڑانے والی کیا بات ہے ؟‘‘
باقی بچوں کا بھی تعارف ہوا مگر اُس کے بعد روحیل کو کچھ سنائی نہ دیا کیوں کہ وہ اپنی ہی سوچوں میں کھو گیا تھا۔آدھی چھٹی ہوئی تو نعمان اور اُس کے دوستوں نے روحیل کو یہ کہہ کر تنگ کرنا شروع کردیا، ’’اوہ تو تمہارے ابو چوکیدار ہیں ،تو کیا وہ رات کو گلیوں میں پھر پھر کر سیٹیاں بھی بجاتے ہیں ؟‘‘
ایک اور لڑکا ہنستے ہوئے بولا، ’’وہ رات کو اونچی اونچی چلاتے ہوں گے ، جاگتے رہنا جاگتے رہنا، میرے پہ نہ رہنا۔‘‘
اُس لڑکے کی بات سن کر ایک بار پھر تمام لڑکے قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔
روحیل کی آنکھیں پرنم ہوگئیں اور وہ صرف یہ کہہ کر وہاں سے چلتا بناکہ ’’میرے ابو چوکیدار نہیں بلکہ بینک میں سکیورٹی گارڈ ہیں ۔‘‘

………………

روحیل کے ابو جمیل کی آمدنی بے شک بہت کم تھی مگر اُس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو اچھے سکول میں پڑھائے ۔ اُس کی بیوی اِتنی پڑھی لکھی تونہ تھی مگر سلیقہ شعار اور سگھڑ خاتون تھی۔ وہ گھر کے تمام کام بڑی وفاداری اور دیانت داری سے سرانجام دیتی تھی۔ جمیل اپنی بیوی سے بہت خوش تھا۔ روحیل پانچویں میں پہنچا تو اُس کے ابو نے اُس کے لئے ٹیوشن کا بھی بندوبست کردیا ۔ روحیل بڑے شوق اور دھیان سے تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ روحیل کی چھوٹی بہن مہک دوسری جماعت میں تھی۔
ایک روز روحیل کے ابو نے دونوں بچوں کو حسبِ روایت سائیکل پر سکول چھوڑا اور پھر بینک اپنی ڈیوٹی پر روانہ ہوگئے۔مہک نے تو سائیکل سے اترتے ہوئے خوشی خوشی اپنے ابو کو خدا حافظ کہا جب کہ روحیل کو یہی فکر لاحق تھی کہ کہیں نعمان اپنی مہنگی سی گاڑی پر اِس وقت سکول نہ پہنچ جائے ورنہ اُس نے ابو کی سائیکل کا بھی مذاق اڑانا شروع کردینا ہے۔ بس یہی فکر اُسے ایسا لاتعلق کئے ہوئے تھی کہ اُس نے اپنے ابو کے سلام کا بھی جواب نہ دیا اور فوراً اُن سے الگ ہو کر سکول کے گیٹ سے اندر بھاگ گیااور اُس کے ابو اُسے حیرانی سے دیکھتے رہ گئے۔
جمیل بینک میں اپنی ڈیوٹی پر موجود تھا جب تقریباً گیار ہ بجے ڈاکوؤںکے ایک گروہ نے بینک میں گھس کر تمام عملے اور وہاں پر موجود لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔ جمیل کے علاوہ دو اور سکیورٹی گارڈز بھی تھے جن کو ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پرزمین پر جھکے رہنے کا حکم دیا ہوا تھا۔ کیشئرز انتہائی خوف کے عالم میں تمام روپیہ ڈاکوؤں کے سپرد کر رہے تھے ۔ دانائی بھی اِسی میں تھی کیوںکہ اگر اُن کی بات نہ مانی جاتی تو یقینا اُن کے پاس دوسرا حل موت کے گھاٹ اتار دینا ہی تھا۔ جمیل شدید کشمکش میں مبتلا تھا ۔ وہ کسی صورت اپنی ذمہ داری میں کوتائی نہیں برتنا چاہتا تھا۔ اُس نے وہیں زمین پرجھکے ہوئے ، ہلکا سے سر اٹھا کر کھنکھیوں سے ڈاکوؤں کی تعداداور اُن کی پوزیشنز کا اندازہ لگایا۔ اور پھر آناً فاناً اپنے قریب کھڑے ایک ڈاکو کے پیٹ میں اِس زور سے گھونسہ مارا کہ رائفل اُس کے ہاتھ سے گر پڑی اور اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا پیٹ تھام لیا۔ اُسی لمحے جمیل رائفل پر جھپٹااور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے بڑی محفوظ پوزیشن سنبھال لی۔ باقی تین ڈاکوؤں نے اُس پر فائر کیا لیکن وہ پہلے ہی زمین پر جھکا ہوا تھا۔ وہیں سے اُس نے بھی باری باری تمام ڈاکوؤں کا نشانہ لیا۔ دو تو موقع پر ہی ڈھیر ہوگئے ، ایک جس کے پیٹ میں گھونسہ پڑا تھا ، ٹانگ پر گولی لگنے سے زخمی ہوکر زمین پر گرپڑا۔ آخری رہ جانے والے نے جمیل کے سر کا نشانہ لگایا اور کامیاب ہوکر داخلی دروازے کی جانب بھاگا تاکہ جان بچا سکے ۔ مگر اَب تمام سہمے لوگ اور دیگر گارڈز بھی دلیر ہو چکے تھے ۔ سب نے اُسے آخر کار دبوچ لیااور باآسانی زیر کر لیا۔ افسوس کہ جمیل موقع پر ہی ابدی نیند سو گیا مگر وہ ایک بڑا کارنامہ سرانجام دے کر شہید ہوا تھا۔
اگلے روز تمام ملکی اخبارات نے اِس خبر کونمایاں طور پر شائع کیا۔ زندہ بچ جانے والے ڈاکو سے تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ دراصل اُن کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم کے ساتھ تھا اور وہ بینکوں کو اِس لئے لُوٹتے ہیں تاکہ ملک میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آرمی آپریشن کا مقابلہ کرسکیں ۔ اخبار میں جمیل کی بھی تصویر شائع ہوئی تھی اور اُس کی بہادری پر حکومت اور دیگر اداروں نے داد دی اور انعام کا بھی اعلان کیا۔ جو بڑی مشکل سے ملا اور بڑی آسانی سے چند ہی دنوں میں خرچ بھی ہو گیا۔

…………

اَب روحیل کا سر فخر سے بلند تو ہوچکا تھا مگر جس با پ پر اُسے فخر تھا وہ زندہ نہیں رہا تھا۔ چند دن تو وہ پہلے سے بھی زیادہ مایوس اور اپنی سوچوں میں گم سم رہنے لگا۔ مگر پھر ایک روز اُس کے ٹیوشن والے ٹیچر فیصل نے اُسے ہمت دلائی۔
’’بیٹا آپ کو تو اپنے ابو پر فخر ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے شہید ہوئے ہیں ۔اَب پریشان ہونا چھوڑ کر آگے کا سوچو کیوں کہ تمہیں ہی اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہے۔‘‘
باپ کی موت کے چند ماہ بعد ہی روحیل کی والدہ کو اندازہ ہوگیا کہ اَب بچوں کو اُسی سکول میں پڑھانا ممکن نہیں ۔ فیصل جو نوجوان تھا اور روحیل وغیرہ کی صورتِ حال سے بخوبی واقف تھا۔اُس نے روحیل کی بات کو غور سے سنا،
’’سر مَیں نے سوچا ہے کہ مَیں پڑھائی چھوڑ کر کوئی کام شروع کرتا ہوں ۔ اِس طرح چھوٹی بہن تو کم از کم پڑھ سکے گی اور گھر کی ضروریات بھی پوری ہوجائیں گی۔ ‘‘
فیصل نے جواب دیا، ’’دیکھو روحیل اگر تم فیس نہ دے سکنے کی وجہ سے سکول چھوڑ بھی رہے ہوتو پلیز پڑھائی مت چھوڑنا، میرا وعدہ ہے کہ مَیں تمہیں اِسی طرح پڑھانے کے لئے آتا رہوں گا اور تم سے کوئی فیس نہیں لوں گا۔ بس مَیں یہی چاہوں گا کہ تم پڑھ لکھ کر اچھے عہدے پر فائز ہو جاؤ۔ ‘‘
ٹیوشن والے سر فیصل کی اِن باتوں نے روحیل کی اَور بھی ہمت بندھائی اور وہ کام کرنے اور شام کو ٹیوشن پڑھنے کے لئے تیار ہوگیا۔ فیصل کی واقفیت سے ہی روحیل کو ایک موٹر مکینک کے پاس ملازمت مل گئی ۔ اَب روحیل تن دہی سے کام سیکھتا اور پھر شام کو مقررہ وقت پر فیصل اُسے پڑھانے کے لئے آجاتا۔ چھوٹی بہن کو ایک قریبی سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں فیس انتہائی مناسب تھی۔
گھر کے تمام اخراجات پورے کرنے کے لئے آخر کار روحیل کی والدہ نے بھی لوگوں کے کپڑے سینا شروع کردیے۔ اِس طرح کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔ روحیل کی والدہ فیصل کو اکثر کہتیں، ’’بیٹا تمہارے ہم پر اور خصوصاً روحیل پر بڑے احسان ہیں ، تم اِسے ہمت نہ دلاتے تو یہ یونہی مایوسی کے اندھیروں میں میں پھنستا چلا جاتا کہ مَیں یتیم ہوگیا ہوں ۔ ہاں مَیں مانتی ہوں کہ مَیں بیوہ اور میرے دونوں بچے یتیم ہوگئے ہیں مگر اَب اگرہم اپنے اوپر ہی ترس کھا کھا کر ہلکان ہوجائیں تو زندگی اِس طرح تو نہیں گزر سکے گی۔ ‘‘
چنانچہ فیصل کے ساتھ ساتھ روحیل کی والدہ بھی اُس کے لئے ہمت کا باعث بنتی رہیں۔
روحیل کے ابو اگرچہ اُس کے ساتھ نہ تھے مگر وہ بھی اُس کے لئے ہمت اور حوصلہ مندی کی ایسی مثال تھے کہ اُن کے متعلق سوچ کر یا اُنہیں یاد کرکے روحیل پرجوش ہوجاتا ۔ اُس میں جوش و جذبے کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی۔ وہ اکثر بڑے فخر سے اپنے ابو کی جرأت و بہادری کا واقعہ سناتااور کہتا کہ میرے ابو صرف ایک گارڈ نہیں تھے بلکہ اُنہوں نے ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کی ہے، وہ تو ایک شہیدہیں ۔ ‘‘
سچ بھی یہی تھی کہ اگر اُس دن وہ ڈکیتی کامیاب ہوجاتی تو یقینا وہ سارے کا سارا پیسہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے استعمال ہوتا۔ اگر وہ ڈاکو زندہ رہتے یا پکڑے نہ جاتے تو اُنہوں نے آزادی کے ساتھ ایسی بہت سی وارداتیںکرنا جاری رکھنا تھا۔
روحیل نہ صرف خود ایک باہمت بچہ بن چکا تھا بلکہ وہ دوسروں کے لئے بھی ہمت و حوصلے کا باعث بنتا تھا۔اُس نے اَب کبھی مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیا تھا۔اُس نے پانچویں کے پرائیویٹ امتحان دیے اور اچھے نمبروں میں کامیاب ہوا۔ ادھر اُس کی چھوٹی بہن مہک بھی تعلیمی لحاظ سے ترقی کی منازل طے کر رہی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آپہنچا جب روحیل نے آٹھویں کے بورڈکے امتحان دیے اور آخر کار اچھے نمبروں سے میٹرک بھی پاس کر گیا۔ اِس میں فیصل کا بہت اہم کردار تھا جس نے بے لوث روحیل کی مدد کرنے کی ٹھانی اور عملی طور پر ایسا کرتا بھی رہا۔ اِس کے ساتھ ساتھ روحیل کی سمجھ داری اور دیانت داری کا بھی کردار تھا کہ وہ دھیان سے کام کرتا اور توجہ سے پڑھتا تھا۔ یہ بات تو سچ اور آزمائی ہوئی ہے کہ ہمتِ مرداں مددِ خدا…روحیل نے بھی ہمت کی تھی اور اُس کی محنت رنگ لائی کہ آخر کار وہ آرمی کے لئے منتخب ہوگیا۔ وہ ایک نئے سفر پر گامزن تھا۔ اُس کے باپ نے اپنے ملک کی حفاظت کے لئے جان دی تھی اور اُسے بھی ہمت نہیں ہارنا تھی۔ اِس سارے عرصے میں وہ جان گیا تھاکہ ہم چاہے کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہوں ،خواہ کوئی کسان ہو، خواہ مزدور ، خواہ ڈاکٹر ، خواہ استاد …ہر ایک کو اپنا اپنا کام دیانت داری اور وفاداری سے کرنا ۔ اِسی میں ہماری اور ہمارے ملک کی حفاظت ہے ۔فیصل نے بطور استاد اپنا کردار اُس کی زندگی میں ادا کیا تھا، ورکشاپ پر اُس کا مالک بے شک مزدور تھا مگر اُس نے اِسے ہنر مند بنا دیا تھااورمالی ضروریات کو بھی پورا کرتا رہا تھا ۔اِسی طرح اُس کی ماں کپڑے سی سی کر دونوں بچوں کی ضروریات پوری کرتی رہی۔
اُس روز جب روحیل کو سوورڈ آف آنر پیش کیا گیا تو بعد ازاں اُس نے کہا ، ’’مجھے اِس بات پر فخر ہے کہ میرا باپ ایک معمولی سکیورٹی گارڈ تھا مگر اُس نے اپنی ذمہ داری کو دیانت داری سے پورا کرتے ہوئے ایک غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا اور دہشت گردوں کے گروہ کو کیفرِ کردار تک پہنچایا۔مَیں اپنی ماں کی ساری محنت و قربانی کے لئے اُن کا شکر گزار ہوں۔ اور مَیں اپنے استادِ محترم فیصل صاحب کو کیسے بھول سکتا ہوں، وہ بھی اِس وقت اپنے خاندان سمیت یہاں پر موجود ہیں ۔ہمارے معاشرے کو ایسے لوگوں کی اور شاید ہمیں ایسے لوگ بننے کی ضرورت ہے جو مایوسی اور نااُمیدی میں گھرے یتیم اور لاوارث بچوں کے لئے اُمید کی کرن ثابت ہوسکیں۔تاکہ ایسے بچے بھی فخر سے سر اٹھا کرقابلِ رشک زندگی بسر کر سکیں۔ ‘‘
ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ روحیل کی والدہ ، بہن اور فیصل کا خاندان جو اُس تقریب میں موجود تھا ، آج اُن سب کا سر فخر سے بلند تھا۔

٭٭٭٭٭٭

روبنسن سموئیل گل کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔آپ چرچ سے بطور پادری منسلک ہیں۔ بچوں کے لیے اخلاقی، تفریحی کہانیاں تحریر کرتے ہیں۔ بچوں کے ادب میں بہت سی ناقابل فراموش کہانیاں تحریر کر کے ملکی سطح پر ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here