دوسرا موتی — اشتیاق احمد

0
67

نوجوان نے ایک نظر کوٹھی پر ڈالی، پھر اُس کی انگلی گھنٹی کےبٹن کی طرف چلی گئی۔ اندر کہیں بہت دُور گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی۔ وہ انتظار کرتا رہا۔ اسے یوں لگا جیسے اب اسے صدیوں انتظار کرنا پڑے گا تب کہیں جا کر یہ دروازہ کھلے گا۔کوٹھی بہت شان دار تھی … اس کی ہر ہر چیز سے امارت ٹپک رہی تھی ۔ یہ صورت حال تو صرف باہر کی تھی … اندر تو نہ جانے کیا حال تھا۔ تنگ آ کر اس نے پھر گھنٹی بجائی۔ اور پھر سے انتظار شروع کر دیا۔ تیسری بار گھنٹی بجانے کے بعد اس نے سوچا شاید یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ لیکن پھر اس کا خیال غلط ثابت ہو گیا اور اس نے قدموں کی آواز سنی پھر زبردست طریقے سے سجایا ہوا دروازہ کھل گیا۔سخت سے نقش و نگار والے ایک شخص کی صورت دکھائی دی۔اس کے کندھے پر ایک کپڑا تھا اور لباس گرد آلود …. اس سے اُس نے اندازہ لگا لیا کہ وہ کوٹھی میں ملازم ہے۔
جی کیا بات ہے؟ اس کے موٹے موٹے ہونٹوں نے حرکت کی۔وہ شام کا وقت اور گرمیوں کے دن تھے۔ باہر خوب گرمی تھی اور دھوپ بھی دروازے پر پڑ رہی تھی۔
مجھے سرفراز اجالا صاحب سے ملنا ہے۔
وہ سوئے ہوئے ہیں۔ملازم نے منہ بنایا۔
وہ کب تک جاگ جائیں گے؟
وہ مغرب کے وقت جاگ جائیں گے۔
تو میں انتظار کر لیتا ہوں …. آپ مجھے انتظار گاہ میں بٹھا دیں۔
کیا آپ ان کے واقف کار ہیں، کیا وہ آپ کو جانتے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
نہیں ! آج پہلی بار ملاقات کا امکان ہے۔”
تب آپ باہر ہی کہیں وقت گزار لیں اور سورج غروب ہونے پر یہاں آجائیں۔
اچھی بات ہے ۔ اس نے قدرے غمگین لہجے میں کہا۔
ملازم نے کھٹ سے دروازہ بند کر لیا۔
اس نے ادھر اُدھرنظر دوڑائی، وہاں کہیں سایہ نہیں تھا۔ وہ وہاں سے چل پڑا۔ کافی دیر تک چلنے کے بعد اسے چائے کی ایک دُکان نظر آئی۔ وہ اس میں جا بیٹھا۔ اس کے کہنے پر بیرے نے جلد ہی چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا۔ مغرب کا وقت ہونے تک اس نے چائے کےتین کپ پی ڈالے… وقت جو گزارنا تھا۔ آخر خدا خدا کر کے سورج غروب ہو گیا۔ اس نے نزدیک ہی واقع ایک مسجد میں نمازادا کی اور کوٹھی کی طرف چل پڑا۔
اس مرتبہ پہلی دستک پر ہی دروازہ کھل گیا۔ ملازم نے اسےدیکھ کر سر ہلا دیا ۔ پھر اشارے سے وہیں کھڑے رہنے کے لیے کہا اور دروازہ بند کر کے اندر چلا گیا۔ اس کی واپسی ہوئی تو اس نے کہا: آئیے ۔
وہ اس کے پیچھے چلتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوا۔ یہ ڈرائنگ روم تھا۔ اس نے دیکھا اس پر بھی پیسا پانی کی طرح بہایا گیا تھا۔ ملازم اسے بٹھا کر چلا گیا۔ پندرہ منٹ کے بے چین اور پریشان کر دینے والے انتظار کے بعد آخر ڈرائنگ روم کا اندرونی دروازہ کھلا… اور ایک بھاری بھر کم ادھیڑ عمر آدمی اندر آ گیا۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے اس پر ایک نظر ڈالی جیسے اُسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو … پر اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے اس نے کہا۔
میں آپ کو پہچان نہیں سکا کیا نام ہے آپ کا؟
کیا آپ سرفراز اجالا ہیں؟
جی بالکل …
سرفراز اجالا صاحب …. آج سے پچیس سال پہلے اس جگہ آپ کی کوٹھی نہیں بلکہ ایک چھوٹا سا مکان تھا۔
تو پھر ؟ اجالا کا چہرہ تن گیا۔
اس وقت آپ کے ساتھ والے مکان میں ایک خاتون رہتی تھیں مریم بی بی ۔ نوجوان یہاں تک کہہ کر رک گیا۔
ہاں ہاں رہتی تھی ، تو پھر ؟ اب اس نے قدرے چونک کر اور کچھ حیران ہو کر کہا۔
آپ ایک سنار ہیں، آپ کی صرافہ بازار میں ایک چھوٹی سی دکان تھی ۔
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ رک رک کر کیوں کہہ رہے
ہیں۔ سرفراز اجالا بے چین نظر آیا۔
اس بیوہ خاتون نے آپ کو ایک موتی فروخت کیا تھا۔
اب اتنی بات مجھے یاد نہیں۔
کوئی پروا نہیں ،آپ بس سن لیں آپ نے اس موتی کے اس بیوہ خاتون کو بیس ہزار روپے دیے تھے۔ آپ کو اب بھی یاد آیا یا نہیں۔
نہیں!
اس خاتون … یعنی مریم بی بی نے آپ سے کہا تھا، یہ موتی میری والدہ کا ہے، انہوں نے مجھے دیا تھا اور وہ ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ موتی کی کم قیمت دے رہے ہوں … اور ہو یہ زیادہ کا… جواب میں آپ نے کہا تھا نہیں میری بہن یہ موتی اس سے زیادہ کا نہیں ۔ آپ بے شک دوسرے سناروں کو دکھا ئیں۔ اس شریف خاتون نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی تھی … خاموشی سے وہ بیس ہزار رکھ لیے تھے. اس کے بعد اس خاتون نے ان پیسوں سے اپنے بیٹے کو پڑھایا لکھایا یہاں تک کہ وہ ایک سرکاری افسر بن گیا۔
اب اس خاتون کو بیٹے کی شادی.. او ہو۔ آپ یہ سب باتیں مجھے کیوں بتا رہے ہیں میرا ان سے کیا تعلق؟ سرفراز اجالا تلملا تھا۔
بیٹے کی شادی کا معاملہ پیش آیا تو اس خاتون نے بیٹے سے کہا بیٹے میرے پاس ایک موتی ہے. اگر یہ فروخت کر دو تو ذرا دھوم دھام سے شادی کر سکیں گے. میں نے کسی زمانے میں بالکل اس کے ساتھ کا ایک موتی ہیں ہزار میں فروخت کیا تھا۔…
اب تو ایک زمانہ بیت گیا۔ لہذا اس موتی کے بھی ضرور ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ مل جائیں گے لہذا تم یہ بیچ آؤ، سو جناب بیٹا بازار چلا گیا۔ اس نے وہ موتی ایک جوہری کو دکھایا۔ جوہری اس نوجوان کو اس کے عہدے کے حوالے سے جانتا تھا۔ اس نے موتی کو خوب اچھی طرح پر کھ کر کہا ہم آپ کو اس کے ساٹھ لاکھ روپے دے دیں گے نوجوان کو یہ سن کر حیرت ہوئی اس نے جوہری سے پوچھا، آپ کے خیال میں چھپیں سال پہلے اس موتی کی قیمت کیا ہو گی جوہری نے جوان پر ایک نظر ڈالی… کیوں کہ اس کا سوال عجیب تھا۔ پھر اُس نے حساب لگا کر بتایا۔ اس وقت بھی یہ موتی دس لاکھ کا تھا۔ سو سرفراز اجالا صاحب، آپ نے اس خاتون سے دھوکہ کیا تھا۔ سراسر ٹھگا تھا۔ دس لاکھ کے موتی کے اس غریب کو میں ہزار روپے دیے تھے۔ آج اس خاتون کا بیٹا آپ سے یہ پوچھنے آیا ہے۔آپ کا انصاف اب کیا کہتا ہے؟
یہ ضروری نہیں کہ وہ موتی اور آپ کی والدہ کا موتی بالکل ایک جیسے ہوں ۔
” تب آپ کو بتانا پڑے گا آپ کی دُکان تو چھوٹی سی تھی جو اب بہت بڑی دکان ہے، آپ کا مکان تو بالکل چھوٹا سا تھا آپ نے پچیس سال میں اتنی ترقی کیسے کر لی ہے۔
سرفراز اجالا نے بوکھلا کر اس نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اُس نے سنا نوجوان کہہ رہا تھا۔

آپ کے پاس دو راستے ہیں آپ جو پسند کریں اُس کاانتخاب کر لیں۔ میرے دفتر میں آکر آپ انسٹھ لاکھ اسی ہزار روپے ادا کر دیں ورنہ آپ کو عدالت میں جانا پڑے گا جو راستہ آپ پسند کریں اس کا انتخاب کر لیں۔ یہ رہا میرا کارڈ اس پر میرے دفتر کاپتہ اور فون نمبرز درج ہیں۔
نوجوان نے اپنا کارڈ اس کو تھما دیا۔ دیکھنے میں بھولا بھالا اور بالکل سیدھا سادھا اور بالکل عام سے لباس والا نوجوان اب اسے ایک تیز طرار، ذہین اور چست و چالاک نظر آ رہا تھا۔ اس کی گویا جون ہی بدل گئی تھی۔ اس نے خوف کے عالم میں کارڈ پر ایک نظرڈالی اُس پر لکھا تھا … اسپکٹر عادل نعیم ” سی آئی ڈی” اسپیشل آفیسرنوجوان اٹھ کر جا چکا تھا۔ اور سرفراز اجالا کی پیشانی پسینے سے بھیگ چکی تھی۔ اب اُس کے پاس اعتراف جرم کرنے کے سواکوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ انسان جو جرم کرتا ہے اُسے ایک نہ ایک دن ضرور اُس کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here