گلہری کا فیصلہ ————– جاوید بسام

0
57

بہت دور جنگل میں ایک ندی کے کنارے درخت پر ایک بہت ہوشیار اور پھرتیلی گلہری رہتی تھی۔ صبح ہوتے ہی وہ دوڑتی ہوئی درخت سے اترتی اور جنگل میں خوراک کی تلاش میں نکل جاتی۔ اسے گھنا سرسبز جنگل بہت پسند تھا اور وہ اس کے ہر درخت، ہر پودے، ہر راستے اور ہر جانور سے واقف تھی۔ جونہی خطرہ محسوس ہوتا وہ چِل چِل۔۔۔۔ چلل چلل کی آواز نکالتی درخت پر چڑھ جاتی۔ اسے سردیوں کے لیے خوراک بھی جمع کرنی پڑتی تھی۔ یہ ایک محنت طلب کام تھا۔ وہ زمین پر گڑھا کھودتی اور اس میں گری دار میوے، مشروم اور بیریاں جمع کرتی، پھر اسے خشک ٹہنیوں اور پتوں سے چھپا کر نرم کائی سے ڈھانپ دیتی۔ کچھ خوراک وہ درختوں کے کھوکھلے تنے میں بھی رکھتی تھی۔ تاکہ سردیوں میں پریشانی نہ ہو۔
ایک دن، شام کے وقت وہ سارا دن گھومنے کے بعد اپنے گھونسلے میں جا رہی تھی کہ ایک جگہ جھاڑیوں میں ایک بونے کو چڑی مار کے جال میں پھنسے دیکھا۔ بونے نے اس سے مدد مانگی۔ گلہری نے اپنے تیز دانتوں سے جال کاٹ کر اسے آزاد کر دیا۔ بونا خوش ہو کر بولا۔”میں تمہاری ایک خواہش پوری کر سکتا ہوں۔ بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟“
گلہری سوچ میں پڑگئی۔ کچھ عرصے سے اسے اپنی زندگی اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ جب دوسرے جانوروں کو دیکھتی تو اسے خیال آتا کاش وہ گلہری کے بجائے ہرن یا لومڑ ہوتی۔ بونے نے جو یہ پیشکش کی تو اسے اپنی خواہش یاد آگئی۔ وہ بولی۔”کیا تم مجھے کسی دوسرے جانور میں بھی تبدیل کر سکتے ہو؟“
”ہاں کیوں نہیں، تم کیا جانور بننا چاہتی ہو؟“ بونے نے پوچھا۔
گلہری سوچنے لگی۔ مجھے کیا بننا چاہیے؟ بندر یا خار پشت ۔۔۔ مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ بولی۔” کیا تم مجھے سوچنے کا وقت دے سکتے ہو؟“
”ہاں کیوں نہیں، تم کل تک سوچ لو، کل اسی وقت یہاں ملنا اور جو تمہاری خواہش ہو بتا دینا۔“ بونا بولا۔
گلہری نے اس کا شکریہ ادا کیا اور درخت پر چلی گئی۔ رات دیر تک وہ سوچتی رہی کہ کیا بننا چاہیے، لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
صبح ہوئی تو گلہری حسب معمول درخت سے اتری۔ کچھ دور چلنے کے بعد اس کی ملاقات ایک مینڈک سے ہوئی۔ اسے خیال آیا کیوں نہ میں مینڈک بن جاؤں؟ مینڈکوں کے کتنے مزے ہوتے ہیں کبھی خشکی میں گھومتے ہیں کبھی پانی میں چھپ جاتے ہیں۔ واہ بہترین زندگی۔ وہ پانی کے نیچے کی دنیا بھی دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ رک گئی اور بولی۔” میاں ٹرٹر! تم کیسے ہو؟“
مینڈک نے اپنی گول بڑی آنکھیں گھماتے ہوئے اسے دیکھا اور بولا۔”میں ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ کیا ہو رہا ہے؟“
”میں مینڈک بننا چاہتی ہوں۔ کیا خیال ہے یہ میرے لیے ٹھیک رہے گا؟“
مینڈک نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا۔”مینڈک بننے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں کوئی پسند نہیں کرتا۔ سب کو ہماری جلد سے کراہیت آتی ہے۔ ہم خشکی میں آئیں تو بگلے اور دوسرے شکاری پرندے تاک میں لگ جاتے ہیں۔ اگر پانی میں جائیں تو مچھلیاں نہیں چھوڑتیں۔ میرا مشورہ ہے کہ تم مینڈک نہ بنو۔“ یہ کہہ کر مینڈک اچھلتا ہوا پانی کی طرف چل دیا۔
گلہری نے گہری سانس لی اور جنگل میں دوڑ گئی۔
وہ دوپہر تک سوچتی رہی کہ اسے کیا بننا چاہیے۔ مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پھر اسے ایک جگہ جھاڑیوں میں ایک بطخ گھومتی نظر آئی۔ اس کے سفید پر دھوپ میں چمک رہے تھے۔ گلہری کو سفید رنگ بہت پسند تھا۔ وہ بطخ کے پاس گئی اور بولی۔”قیں قیں خانم سلام! میں بطخ بننا چاہتی ہوں۔ مجھے تمہاری زندگی پسند ہے۔ تم مجھے اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔“
گلہری کی بات سن کر بطخ کا منہ حیرت سے کھل گیا وہ بولی۔”بطخ نہ بنو۔ کوئی فائدہ نہیں، بطخ کی زندگی میں محنت کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ ہم دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ ساری زندگی اس پریشانی میں رہتے ہیں کہ خشکی پر رہیں یا پانی میں؟ پھر گھونسلا بنانا، انڈے سینا، ان کا خیال رکھنا، ہر وقت خطرہ کہیں لومڑی یا دوسرے شریر جانور چرا کر نہ لے جائیں۔ ہمیں بہت کام ہوتے ہیں۔ مجھے تو اپنی زندگی پسند نہیں ہے۔“ یہ کہہ کر بطخ ندی کی طرف بڑھ گئی۔
گلہری نے آہ بھری اور جنگل میں آگے چل دی۔ وہ دیر تک ادھر ادھر گھومتی رہی۔ آخر کچھ دیر بعد اسے ایک درخت پر سرمئی پروں اور لال گردن والی کونج بیٹھی نظر آئی۔ گلہری کو وہ بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ درخت پر چڑھ گئی اور بولی۔” پیاری کونج! تم کیسی ہو؟ مجھے تمھاری زندگی ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے۔ تم بہت خوبصورت ہو اور ملکوں ملکوں گھومتی ہو۔ میں بھی کونج بننا چاہتی ہوں۔ تمھارا کیا مشورہ ہے؟“
کونج نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولی۔”ہماری زندگی اتنی آسان نہیں، موسم کی شدت ہمیں ہزاروں میل سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ کیا تم کبھی اس جنگل سے باہر نکلی ہو؟“
”نہیں۔“ گلہری شرمندگی سے بولی۔
”ہم کونجیں گرم علاقوں کی طرف ندیوں اور جھیلوں کی تلاش میں میلوں اڑتے ہیں۔ تاکہ سردیاں وہاں گزار سکیں۔ جب وہاں پہنچتے ہیں تو ہر وقت یہ خطرہ ہوتا ہے کہ انسان بندوقیں لیے شکار کرنے نہ آجائیں۔ ہر سال ہمارے بہت سے ساتھی بچھڑ جاتے ہیں۔ ہماری زندگی اتنی آسان نہیں، میرا مشورہ ہے کہ تم کونج نہ بنو۔ ورنہ ساری زندگی کوچ کرتی رہو گی۔“
یہ سن کر گلہری نے گہری آہ بھری اور بولی۔”پھر مجھے کیا بننا چاہیے؟“
”یہ مجھے نہیں معلوم۔“ کونج نے کہا اور وہاں سے اڑگئی۔
گلہری اداسی سے سر جھکائے درخت سے اتر آئی۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ اب سہہ پہر ہوگئی تھی۔ اسے بونے کو بتانا تھا کہ اسے کیا بننا ہے۔ وہ آگے چل دی۔ پھر کچھ دور سے ایک بھیڑیا دوڑتا آتا نظر آیا۔ گلہری نے اسے سلام کیا اور بولی۔”بھیا بھیڑیے! میرے ایک سوال کا جواب دیتے جاؤ۔ میں بھیڑیا بننا چاہتی ہوں۔ تمہارا کیا مشورہ ہے؟“
بھیڑیے نے اسے اپنی سرخ غصیلی نظروں سے دیکھا اور بولا۔”کوئی بے وقوف ہی بھیڑیا بننے کی خواہش کرسکتا ہے۔“
“کیوں؟ تم اتنے بہادر اور طاقتور ہو۔ میں تمہاری طرح بننا چاہتی ہوں۔“ گلہری نے کہا۔
”ہماری بہادری اور طاقت کا کوئی فائدہ نہیں، سب جانور ہم سے گھبراتے اور دور رہتے ہیں۔ ہمیں شکار کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہم گروہ کی صورت میں میلوں بھاگتے ہیں۔ جب کہیں جا کر شکار ملتا ہے، کبھی تو اتنی محنت کے بعد بھی شکار ہاتھ نہیں آتا۔“
”پھر تم کیا کرتے ہو؟“ گلہری نے پوچھا۔
”کچھ نہیں، ہمیں بھوکا رہنا پڑتا ہے اور بھوک سے ساری رات نیند نہیں آتی اور ہم بلبلاتے رہتے ہیں۔ کیا تم کبھی بھوکی رہی ہو؟“ بھیڑیے نے پوچھا۔
”نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔“
”پھر تم بہتر حالت میں ہو۔“ یہ کہہ وہ تیزی سے دوڑ گیا۔
گلہری نے اتنی ٹھنڈی آہ بھری کہ آس پاس کا ماحول سرد ہوگیا اور کہیں سے خرگوش کی آواز آئی۔ ” یہ کیا ابھی گرمی گزری نہیں اور سرد ہوا چلنے لگی۔“
گلہری نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پریشانی سے آگے بڑھ گئی۔ آخر یوں ہی گھومتے پھرتے شام ہوگئی۔ چلتے چلتے وہ فارسٹ افسر کے کیبن کی طرف جا نکلی۔ وہ باہر کرسی پر بیٹھا بھنی ہوئی مرغابی کھا رہا تھا، پلیٹ میں نمک لگی ککریاں بھی موجود تھیں، ساتھ ہی کرسی پر ٹکی اس کی بندوق بھی رکھی تھی۔ گلہری کو خیال آیا۔ واہ اس آدمی کے کتنے مزے ہیں جب چاہتا ہے خرگوش، تیتر یا مرغابی شکار کرلیتا ہے، جب چاہتا ہے درختوں سے پھل توڑ لیتا ہے، سبزی ترکاری کی بھی جنگل میں کوئی کمی نہیں، آرام سے پرسکون جگہ پر رہتا ہے۔ کیوں نہ میں آدمی بن جاؤں؟ مگر پہلے اس سے پوچھنا ٹھیک رہے گا۔ وہ ڈرتے ڈرتے اس کے قریب گئی اور جھجھکتے ہوئے سلام کیا پھر بولی۔ ”اے ابن آدم ! کیا حال چال ہے؟“
افسر نے چونک کر اسے دیکھا اور بولا۔”اللہ کا شکر ہے۔ کیا تم بھوکی ہو؟ لو ککری کھاؤ۔“اس نے ککری گلہری کی طرف بڑھائی۔
گلہری نے کہا۔”الحمداللہ، میرا پیٹ بھرا ہوا ہے، دراصل میں کچھ پوچھنے آئی ہوں۔“
آدمی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
گلہری بولی۔”میں آدمی بننا چاہتی ہوں۔ مجھے آپ کا مشورہ درکار ہے کہ آدمی بننا میرے لیے ٹھیک رہے گا؟“
افسر نے زور سے قہقہہ لگایا اور بولا۔”ہاہاہا۔۔۔۔ آج کل تو آدمی بھی پورے آدمی نہیں ہوتے۔ سارا دن لوگ ایک دوسرے کو کہتے رہتے ہیں، آدمی بنو! آدمی۔۔۔۔۔ خیر تمہیں آدمی بننے کا خیال کیوں آیا؟“
”دراصل مجھے اپنی زندگی پسند نہیں ہے۔ اب مجھے موقع مل رہا ہے کہ میں اپنی ہئیت بدل لوں۔“ گلہری نے جواب دیا۔
”تمھیں کیا، اکثر لوگوں کو اپنی زندگی پسند نہیں ہوتی، سب کسی نہ کسی چیز سے پریشان ہوتے ہیں۔ اب مجھے دیکھو، یہاں اکیلا رہتا ہوں نہ کوئی بات کرنے والا نہ کوئی دکھ تکلیف میں شریک، رات کو جانوروں کے دھاڑنے کی خوفناک آوازیں آتی ہیں تو آنکھ کھل جاتی ہے، دو تین مہینے بعد ایک ہفتے کی چھٹی ملتی ہے تو گھر جاتا ہوں، تنخواہ بہت کم ہے، گزارا مشکل سے ہوتا ہے۔“
”پھر مجھے کیا بننا چاہیے؟“ گلہری نے مایوسی سے پوچھا۔
”میرا مشورہ ہے کہ تم گلہری ہی رہو۔ مزے سے گری دار میوے کھاتی ہو، پھل بھی تمھیں بغیر کچھ خرچ کیے مل جاتے ہیں۔ جب تمہارا دل چاہتا ہے درخت پر چڑھ جاتی ہو، جب دل چاہے درخت سے اتر جاتی ہو، اپنے لیے مہینوں کی خوراک بھی جمع کر لیتی ہو اور تمہیں کیا چاہیے؟“
اس کی بات سن کر گلہری حیرت سے ساکت ہو گئی۔ وہ دیر تک یوں ہی کھڑی رہی۔ پھر اس نے دیکھا سورج تیزی سے مغرب میں ڈوب رہا ہے۔ اسے بونے کی بات یاد آئی۔ وہ جھاڑیوں کی طرف دوڑ گئی۔ بونا وہاں منتظر تھا۔ وہ فوراً بولا۔” ہاں چِل چِل گلہری ۔۔۔۔۔ تم نے کیا بننے کا فیصلہ کیا؟ جلدی سے بتاؤ۔ وقت کم ہے۔“
گلہری بولی۔”پیارے بونے! میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں گلہری ہی رہوں گی۔ ہر جانور دوسرے کی زندگی کو اچھا سمجھتا ہے اور اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ دوسروں کی مشکلات نہیں جانتا۔ بس مجھے کچھ نہیں بننا۔ میں گلہری ہی ٹھیک ہوں۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔“
بونے نے قہقہہ لگایا اور بولا۔” تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ غائب ہوگیا۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here