بہترین کون —- شاہد انور شیرازی(مردان)

0
182

اتنی تیز دھوپ میں وہ بچہ امرود کی بھری ریڑھی کھینچے دینا و مافیہا سے بے خبر’’ پچاس روپے کلّو،پچاس روپے کلّو‘‘کی آوازیں لگا کر امرود بیچ رہا تھا۔ بارش میں گھر سے نکل کر بازاروں میں گھومنا میری فطرت بن چکی ہے۔ کار میں بیٹھے اور کبھی کبھی پیدل بارش کے نظاروں سے لطف اندوز ہونا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
آج بھی اتوار کے دن چھٹی کے باعث بازار میں گھوم رہا تھا۔ بچے کی آواز سے سارے بازارکو متوجہ کیے ہوئے تھی مگر بارش کی وجہ سے گاہگ اس کی طرف نہیں آتے، پیدل چلنے والے دکانوں کے تھڑوں پہ کھڑے بارش کی شدّت میں کمی کے انتظار میں تھے کچھ لوگ بارش سے خود کو بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ جبکہ امرود بیچنے والا بچہ اپنی دھن میں’’ امرود تازہ امرود، پچاس روپے کلّو‘‘ کی آوازیں لگا رہا تھا۔ میں نے کار روک لی ۔ اور اپنے ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔
میں ایک غریب ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ابو محنت مزدوری کر کے میرااور میری ماں کا پیٹ پالتے تھے۔ وہ پھل فروش تھے۔وہ روزانہ صبح سویرے اُٹھ کر نماز فجر کے فوراََ بعد ناشتا کرتے اور فروٹ منڈی جا کر بولی میں فروٹ خریدلاتے ۔ پھل گرد آلود ہوتے تھے اس لیے امّی انہیںپانی سے دھو کر ریڑھی پرسجاتیں۔ ابّو ریڑھی لے کر گلی گلی گھومتے اور آوازیں لگا کرپھل بیچتے۔وہ اکثر رات گئے گھر لوٹتے تھے۔ میںاکثر ابّو کے آنے سے پہلے ہی سو جاتا تھا کیونکہ مجھے صبح سکول بھی جانا ہوتا تھا۔
میں پانچویں جماعت میں تھا جب ابّو کو بخار نے آ لیا، وہ مسلسل تین دن تک بستر سے لگے رہے۔ سرکاری ہسپتال سے علاج کرایا مگر ان کی طبیعت میں فرق نہ آ سکا۔ اِدھر گھر میں فاقوں نے ڈیرے جمالیے۔ گھر کے حالات دیکھ کر ابّو چار و نا چار فروٹ منڈی جا کرپھل ادھار خریدلائے اور ریڑھی پر سجا کر بازار کی طرف بیچنے نکل پڑے۔اس دن بارش بھی زور سے جاری تھی امّی نے بہت منع کیا مگر ابّو تھے کہ امّی کی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ تیز بخار نے ابّو کی صحت پر بُرا اثر ڈالاتھا۔ دوپہر کو ابّو کی لاش ریڑھی سمیت گھر کے دروازے پر لائی گئی۔
وہ دن ہمارے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ امّی بال نوچ نوچ کر مجھے سینے سے لگا کر رو رہی تھیں۔ امّی کی حالت قابلِ رحم تھی۔ میں امّی کی حالت دیکھ کر دیوانہ وار رونے لگا۔ لوگوں نے تسلیاں دیں۔ ابّو کو غسّل دیا گیا اور شام کو ابّو کا جنازہ گھر سے نکلا۔
ابّو کے کفن دفن کے بعد امّی نے محنت شروع کی۔ سردیوں کے موسم میں سارا دم مالٹوں اور سنگتروں کے چھلکے باریک باریک کاٹ کر دھوپ میں خشک کر لیتیں اور خشک ہونے پر دکان داروں کے ہاتھ بیچ دیتیں۔
گرمیوں کے موسم میں آموں کے چھلکے اکھٹے کرتیں اور دھوپ میں سوکھا کر دکان داروں کو بیچ دیتیں جبکہ گٹھلیاں پیس کر پنساری کے ہاتھوں فروخت کرتیں، یوں ہمارا گزر بسر ہو جاتا۔ میں امّی کی محنت مشقت دیکھ کر رات کو جب پڑھنے کے لیے بیٹھتا تو چپکے چپکے خوب روتا، رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا۔ میری امّی مجھے پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنتے دیکھنا چاہتی تھیں۔ میری بھی آرزو تھی کہ پڑھوں اور اپنی ماں کا سہارا بنوں۔ کیونکہ مجھے احساس تھا کہ میری امّی کی مجھ سے بہت سی امیدیں بندھی ہوئی ہیں۔
میری امّی کہا کرتی تھیں کہ علم بڑی دولت ہے اور تعلیم حاصل کر کے عزّت اور وقار حاصل کیا جا سکتا ہے۔اگر مقام بناناہے تو علم حاصل کرو۔ امّی کی نصیحتیں میرے لیے راستے کی روشنی کا کام دیتیں، میں نے ہمیشہ امّی کی بات غور سے سنی اور عمل بھی کیا۔ اساتذہ بھی میری محنت سے خوش تھے۔
وقت پَر لگا کراُڑ رہا تھا، امّی کی دُعائیں اور میری محنت رنگ لائی۔ں میٹرک میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو گیا۔ مجھے ’’ایف۔ اے‘‘ میں آسانی سے داخلہ مل گیا اور پچھلی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے میں نے ایف اے بھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔ امّی کی خوشی قابل دید تھی۔ اُنھوں نے چاوّل پکا کر تقسیم کیے۔امّی میرے اور گھر کے خرچے برداشت کرتی رہیں۔
امّی! اتنی محنت مت کیا کریں، اب آپ زیادہ محنت کر کے بیمار ہو جاتیں ہیں۔ میںاکثر امّی سے کہا کرتا۔
’’ نہیں بیٹے نہیں۔۔۔اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں ۔ وہ دن دور نہیں جب تُو پڑھ لکھ کر بڑ اافسر بن جائے گا ‘‘ میں ان کی باتیں سُن کر خاموش ہو جاتا ۔
میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ ساتھ ہی میں نے الیکٹریشن کا کام بھی سیکھ لیا۔محلے میں کسی کی بجلی خراب ہوتی تو میں جا کر ٹھیک کر دیتا مجھے اس کا معاوضہ ملتا تھا۔ اب میں امی کے ساتھ ہاتھ بھی بٹانے لگا۔ تھرڈائیر میں داخلہ لیا اور خوب محنت کر کے بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کر گیا۔ بی اے کرنے کے فوراََ بعد میں نے سی ایس ایس کے لیے دن رات محنت کرنا شروع کی اور مزید ایک سال تک کتابوں کے مطالعہ میں گزارا۔ سی ایس ایس امتحان میں بھی اللہ نے مجھے کامیابی عطا کی اور اب میں امی کی دعائوں سے ایک سرکاری محکمے میں افسر کی کرسی سنبھالے ہوئے ہوں۔میرا ماضی خواب کی مانند میری آنکھوں میں پھر رہا تھا۔
اچانک پانی کی ایک بوند میرے چہرے پر پڑی۔ نجانے خیالوں میں کب میں نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا تھا۔میں حقیقت کی دنیا میں آگیا۔ بارش تیز ہو گئی تھی۔پھل فروش بچے کی حالت دیدنی تھی وہ تیزی سے ریڑھی کھینچے جا رہا تھا مگر اسے کہیںایسی جگہ میّسر نہیں آئی جہاں وہ خود کو اور ریڑھی کو بارش سے بچا سکے۔
’’یہ لو چھتری‘‘۔۔۔ ایک بچہ ، ریڑھی والے بچے سے مخاطب ہوا۔ ’’میں ساتھ والی گلی میں رہتا ہوں ۔۔۔ میں بھاگ کر چلا گھر پہنچ جائوں گا ۔ تم بارش سے خود کو چھتری سے بچانا‘‘ بچّہ چھتری اسے تھما کر بھاگ گیا۔ میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے کیونکہ جس بچّے نے ریڑھی والے بچّے کو چھتری دی، وہ ہمارے محلے کے رمضان چچا کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ بہت غریب تھے۔ رمضان چچا پچھلے دو مہینے سے بستر پر تھے کیونکہ انھیں ہیپاٹائٹس کا مرض لاحق ہو چکا تھا۔رمضان چچا کا یہ بیٹا صبح سکول جاتا اور سکول سے واپس آ کر چھوٹا سی صندوقچی گلے میں لٹکا کر لوگوں کے جوتے پالش کرتاوہ اب اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔
چھتری لے کر ریڑھی والا بچہ تشکّر آمیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا جبکہ رمضان چچا کا بیٹا غائب ہو چکا تھا۔
میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ بارش کی شد ت میں اضافہ گیا۔ ریڑھی والے بچے نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں لہرا کر خشک کرنے کی ناکام کوشش کی اور سر پر چھتری رکھ کر ریڑھی کے اوپر ریگزین کے میں ہاتھ ڈال کر کتاب نکالی ۔ کتاب شاپر میں بند تھی اس لیے بھیگنے سے بچ گئی تھی۔ میں سے غور سے دیکھا تو اس کے ٹائٹل پر لکھا تھا ’’ریاضی برائے جماعت پنجم‘‘ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بچے کے نزدیک پہنچا۔
’’بیٹے تم پڑھتے ہو؟‘‘
’’جی میں پانچویں جماعت میں پڑھتا ہوں‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔ــ’
’تمھارے ابّو؟‘‘ جی وہ پچھلے مہینے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔اب میں ان کی جگہ ریڑھی لگا تا ہوں‘‘ اس نے معصومیت سے کہا۔
’’ اور یہ کتاب؟‘‘میں نے استفسار کیا۔
’’ کل میرا ریاضی کا ٹیسٹ ہے اس لیے گھر سے نکلتے وقت کتاب بھی ساتھ لے آیا، جہاں وقت ملتا ہے ریڑھی کھڑی کر کے ریاضی کے سوالات حل کرتا ہوں‘‘ بچّے نے بتا یا۔
بچے کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا ۔
میں بہتر ہوں، جس نے محنت سے غربت کے باوجود اتنی اچھی ملازمت حاصل کی یا وہ بچّہ جس نے ریڑھی والے بچّے کو غربت کے باوجود اپنی چھتری تھما دی یا یہ بچّہ جو اتنی تیز بارش میں مزدوری کے ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہا ہے؟
کتنے امرود تولوں جناب؟
وہ پوچھ رہا تھا اور میں اپنے ہی خیالات میں گم تھا۔تیز بارش کی پھوار بھی مجھے محسوس نہ ہو رہی تھی۔

شاہد انور شیرازی مردان سے تعلق رکھتے ہیں اور بچوں کےنامور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی کئی کہانیاں بچوں کے معروف رسالوں کی زینت بن چکی ہیں۔ خیبر پختون خوا کے ادب اطفال کی تاریخ میں ان کا نام معتبر حوالہ ہے۔ آج کل ایک نجی کالج میں بطور اردو لیکچرر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ (ادارہ)

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here