روح کی بے چینی ——- علی اکمل تصور

0
280

عالمِ ارواح میں آج ایک باپ کی روح بہت بے چین تھی، بہت پریشان تھی۔ اسے پریشان دیکھ کر اس کی ساتھی روحیں بہت فکر مند ہو رہی تھیں۔ اس باپ کی روح کو کسی پل چین نہیں تھا وہ لہرا کر کبھی اس طرف پرواز کرتی تھی کبھی دوسری سمت میں نکل جاتی تھی۔جیسے کوئی اپنے اطراف میں نہ نظر آنے والے حصارکو توڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ مگر ناکامی پر تھک ہار کر لوٹ آتا ہو۔
’’ کیا بات ہے؟۔۔۔۔ کیوں پریشان ہو ۔۔۔ ‘‘ روحوں نے اسے اپنے جھرمٹ میں لے لیا تھا۔’’کیا بتائوں جب سے یہاں آیا ہوں ایک پل چین نہیں، وہاں میرے چھوٹے چھوٹے بچّے اکیلے ہیں، مصیبت میں ہیں اور میں ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ ‘‘اس باپ کی روح بولی تھی۔
’’ہوا کیا تھا۔۔؟‘‘سب روحوں نے بیک وقت سوال کیا۔
’’ اک بگولہ تھا اک قیامت تھی جو آئی اور آ کر گزر گئی۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں اپنی بیوی کے ہمراہ گھر واپس آ رہا تھا ۔نجانے کدھر سے ایک ٹرالر آیا اور اس نے ہمیں کچل کر رکھ دیا۔ ہمیں نہ خود کی خبر تھی نہ موٹر سائیکل کی ۔پھر ہم نے خود کو یہاں پایا اب میرے پاس لباس اور جسم ندارد ہیں مگر اللہ نے مجھے نظر ضرور دے دی ہے میں یہاں سے اپنے بچوں کو دیکھ سکتا ہوں مگر چاہوں بھی تو ان کی مدد نہیں کر سکتا۔۔۔ کتنا مجبور باپ ہوں میں؟‘‘وہ سسک پڑا تھا۔
سب سے بڑی مصیبت میں میرا بڑا بیٹا ہے،وہ چھوٹوں کا باپ بھی ہے اور ماں بھی۔ وہ دیکھو۔۔۔ وہ ۔۔۔ آج پھر اسے سکول سے دیر ہو گئی ہے۔۔۔ سب عالمِ بَرزخ سے دنیا کا نظارہ کرنے لگے۔

٭٭٭٭٭

سکول کا وقت گزر چکا تھا عزیز اپنی سائیکل پرسوار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔اس وقت وہ بازار سے گزررہا تھا اس لیے اس کی رفتار سست تھی۔اسے ہمیشہ سکول سے دیر ہو جاتی تھی۔والدین کی وفات کے بعد اسے ایک بھائی اور ایک بہن وراثت میں ملے تھے۔دن کو سکول میں پڑھائی کے بعد وہ ایک ہوٹل میں رات گئے تک کام کرتا تھا۔ صبح منہ اندھیرے اٹھتا،گھر کا کام سمیٹتا اور بہن بھائیوں کو سکول کے لیے تیار کرتا۔یہ اس کا روز کا معمول تھا۔بس انہی کاموں میں اسے سکو ل سے دیر ہو جاتی تھی۔وہ ایک سرکاری سکول میں پڑھتا تھا۔اس کے کلاس انچارج بشارت صاحب ایک محنتی اور ذہین استاد تھے مگر غصے میں بھی ان کا ثانی نہ تھا۔نظم و ضبط کی خلاف ورزی تو وہ بالکل پسند نہ کرتے تھے دیر سے پہنچنے پر اکثر عزیز ان کے عتاب کا نشانہ بنتا تھا۔روزانہ تاخیر سے آنے کی وجہ سے انھیں عزیز سے چِڑ ہو گئی تھی۔اب وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر عزیز کی پٹائی کرتے رہتے تھے۔اس بات سے بے خبر کہ عزیز کن حالات میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، وہ عزیز کو اچھا طالب علم بنانا چاہتے تھے۔
حسبِ معمول آج بھی اُسے دیر ہو چکی تھی۔وہ چاہتا تھا کہ آج سکول سے چھٹی کر لے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسے سزاضرور ملے گی مگر چھٹی کی سزا دیر سے پہنچنے کی سزا سے کہیں بڑھ کر ہوتی۔ سائیکل چلاتے ہوئے اس نے چھٹی کا خیال دل سے نکال دیا اور تیزی سے سکول کی طرف بڑھنے لگا۔

٭٭٭٭٭

آہ۔۔۔سائیکل چلاتے ہوئے عزیز نے کسی کے کراہنے کی آواز سنی تو رُک گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔کوئی تکلیف کی شدت سے کراہ رہا تھا۔عزیز کی نگاہ دائیں جانب پڑی تو اسے دو عورتیں نظر آئیں۔ وہ ایک بند دکان کے تھڑے پر بیٹھی تھیں۔ اُن میں سے ایک عمر رسیدہ تھی جو تکلیف میں مبتلا تھی۔تکلیف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔دوسری عورت اس کا بایاں بازو دبا رہی تھی۔
امی جان!حوصلہ کریں ،آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔
بہو! بہت درد ہو رہا ہے۔شاید آج میری جان ہی نکل جائے گی۔آس پاس گزرنے والوں میں سے عزیز کے سوا کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوا۔
اماں جی! کیا ہوا۔۔۔؟ عزیز سائیکل سے اتر کر ان کے پاس آگیا تھا۔
بیٹا! یہ میری ساس ہیں۔انھیں دل کی تکلیف ہے۔ہم بازار آئے تھے ۔اچانک انھیں تکلیف شروع ہو گئی ہے۔اب میں کروں تو کیا کروں۔میرے میاں سے رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں، انھیں اکیلا چھوڑ کر ڈاکٹر کہاں سے ڈھونڈوں؟ یہاں کوئی سواری بھی موجود نہیں۔کوئی موٹر سائیکل والا ہماری مدد کر سکتا ہے مگر یہاں کوئی سنتا ہی کب ہے؟ ہماری مدد کون کرے گا۔ وہ عورت بے بسی سے بولتی چلی گئی۔
عزیز سوچ میں پڑ گیا۔اگر وہ ان کی مدد کرتا تو سکول سے چھٹی یقینی تھی۔سر بشارت کی جان لیوا پٹائی۔۔۔۔وہ سوچ کر ہی کانپ اٹھا۔
تم یقینا سکول جا رہے ہو؟ تم جائو اللہ ہماری مدد کا کوئی وسیلہ بنادے گا۔ عورت نے عزیز کے پاس کتابیں دیکھ کر کہا۔
اللہ نے آپ کی مدد کاذیعہ پیدا کر دیا ہے۔عزیز فیصلہ کر چکا تھا کہ بشارت صاحب جتنی بھی سزا دیں وہ اس بوڑھی عورت کو بے چارگی کے عالم میں چھوڑ کر نہیں جائے گا۔
آپ اماں جی کو میری سائیکل کے کیرئیر پر بٹھا دیجئے۔میں انھیں ہسپتال لے جائوں گا۔
دونوں عورتوں نے شکر گزار نظروں سے عزیز کی طرف دیکھا۔عزیز نے بوڑھی عورت کو سائیکل پر بٹھایا اور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔ دوسری عورت بھی پیدل اس کے پیچھے آنے لگی۔بازار سے قریبی ہسپتال کا فاصلہ آدھ کلو میٹر تھا۔عزیز نے یہ فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کیا۔ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں بوڑھی عورت کو فوری طبی امداد دی گئی۔ہسپتال میں انھیں پانچ گھنٹے لگ گئے۔اب اس خاتون کی حالت بہتر تھی۔ڈاکٹر نے انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی تھی۔دونوں عورتیں عزیز کی شکر گزار تھیں اور اسے دعائیں دے رہی تھیں۔
اب تم جائو بیٹا! خدا تمھیں سلامت رکھے، ہم گھر چلے جائیںگے۔ بوڑھی عورت نے ممنونیت سے کہا۔
نہیں ماں جی! میں آپ کو گھر چھوڑ کر ہی جائوں گا۔عزیز نے اصرار کیا۔سکول سے چھٹی ہو ہی چکی تھی۔بوڑھی عورت کی تکلیف کے پیش نظر عزیز چاہتا تھا کہ انھیں گھر تک خود چھوڑ کر آئے۔ انھوں نے عزیز کی ضد کے سامنے سر جھکا دئیے۔اب وہ ان کے ساتھ گھر کی طرف رواں دواں تھا۔ ایک طرف نیکی کی خوشی تو دوسری جانب بشارت صاحب کا ڈنڈا اسے اپنی کمر پر لگتا محسوس ہو رہا تھا۔وہ سزا کے خوف کو جھٹکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ـ’’میں نے بے جا چھٹی نہیں کیـ ‘‘۔اپنوں کے لیے تو سب قربانیاں دیتے ہیں، غیروں کے لیے قربانی دینا حوصلے کا کام ہے۔جو ہو گا دیکھا جائے گا وہ انھی سوچوں سے اپنے خوف کو دور کرنے کی کوشش کرتا رہا۔وہ ان عورتوں کی رہنمائی میں چل رہا تھا۔ جوں جوں فاصلے سمٹتے جا رہے تھے اس کی الجھن میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔یہ راستا اس کا دیکھا بھالا تھا۔وہ تینوں ایک بند گلی کے سامنے پہنچ گئے۔عزیز کا جی منہ کو آرہا تھا۔ اس کے لیے قدم اٹھا نا مشکل ہو رہا تھا۔اس گلی کے کونے میں بشارت صاحب کا گھر تھا۔ڈیڑھ بج چکا تھا اور یہ وقت بشارت صاحب کی ٹیوشن کا تھا۔
اگر سر نے مجھے یہاں دیکھ لیا تو۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی عزیز کی کنپٹیاں سلگنے لگیں۔اگرچہ بشارت صاحب اسے روز سزا دیتے تھے مگر عزیز دل سے ان کا احترام کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ ڈر رہا تھا۔اب وہ گلی میں داخل ہو چکے تھے۔ گلی میں کل آٹھ گھر تھے۔ان عورتوں کا گھر کون سا ہے؟ وہ سوچنے لگا۔
وہ عورتیں بشارت صاحب کے گھر کے عین سامنے جا کر رک گئیں تو عزیز کو ایسے لگا جیسے اس کا دل دھڑکنا بھول چکا ہے۔
بیٹا! ہم گھر پہنچ چکے ہیں، اندر آجائو۔میرا بیٹا تم سے مل کر بہت خوش ہو گا۔
مم۔۔۔ماں جی!مجھے جلدی ہے۔۔میں چلتا ہوں۔عزیز واپس مڑنے لگا۔
عورتیں بھی محسوس کر رہی تھیں جیسے عزیز کسی الجھن کا شکار ہے۔انھوں نے بھی اصرار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ عزیز راستے میں انھیں اپنی ساری کہانی سنا چکا تھا۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ شاید وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیے پریشان ہو رہا ہے۔عزیز تیر کی مانند وہاں سے نکلا۔اسے بیٹھک سے لڑکوں کے پڑھنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔اس سے پہلے کہ وہ آگے نکلتا۔اچانک دروازہ کھلا اور سر بشارت باہر آگئے۔
سب لڑکے ہوم ورک کریں۔ میں ابھی آتا ہوں۔بشارت صاحب نے اندر جھانکتے ہوئے لڑکوں کو ہدایت دی۔جیسے ہی وہ پلٹے ان کی نظر عزیز پر پڑ گئی۔
عزیز۔۔۔۔! وہ حلق کے بل چلائے۔عزیز کے لیے اب فرار ممکن نہ رہا تھا۔
سر۔۔۔سس۔۔سر! سر میں۔۔۔عزیز کے الفاظ منہ میں اٹک کر رہ گئے۔بشارت صاحب کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
ادھر آئو۔۔۔آج سکول کیوں نہیں آئے؟
وہ ۔۔۔ میں۔۔۔سر۔۔۔ میں۔۔ عزیز جیسے گونگا ہو گیا تھا۔
کہو، لوگ نیکی کی بات بتانے میں بھی شرم محسوس کرتے ہیں بھلا؟ تم کون سا نیکی کو شہرت کے لیے استعمال کرو گے۔ بولو! عزیز کے دل سے آواز آئی۔عزیز کا من تھا کہ وہ سب کچھ بشارت صاحب کو بتا دے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے مگر اس کی زبان پر تالے لگے ہوئے تھے۔
اندر آئو! عزیز کی خاموشی نے بشارت صاحب کا غصہ آسمان پر پہنچا دیا تھا۔
عزیز نے اپنی سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور بشارت صاحب کے پیچھے بیٹھک میں داخل ہو گیا۔کمرے میں پڑھنے والے طلبا کو صورت حال کی نزاکت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ سب کو سانپ سونگھ گیا اور پھر گویا قیامت آگئی۔
ـ’’تڑاخ‘‘ کی آواز نے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔ عزیز کی چیخ نکل گئی۔اسے لگا جیسے اوپر ابا جان کی روح تڑپ کر رہ گئی ہو۔سر بشارت نے چھڑی اٹھائی اور پے درپے عزیز کی کمرپر مارناشروع کر دیا۔عزیز کویوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کی کمر میں مرچیں بھر دیں ہوں۔وہ تڑپ کر اندرونی دروازے سے ٹکرا گیا۔
’’آج کے بعد تو کبھی چھٹی نہیںکرے گا‘‘۔سر بشارت پر جیسے جنون طاری ہو گیا تھا۔ چھڑی کی لگاتار ضربوں نے عزیز کے حواس معطل کر دئیے تھے۔اسی لمحے اندرونی دروازہ کھلنے آواز آئی اور بشارت صاحب کی بیوی اور والدہ بیٹھک میں آگئیں۔بشارت صاحب کے غصے میں مزید اضافہ ہو گیا۔
آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ آج اتنی دیرکہاں لگا دی آپ نے؟ اند رجائیں آپ لوگ! بشارت صاحب غصے سے بولے۔
ایک یتیم اور معصوم بچے کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہوئے تمھیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ بشارت صاحب کی والدہ نے بشارت صاحب کے سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہا اور آگے بڑھ کر عزیز کو پیار کرنے لگیں۔
معصوم۔۔۔یہ معصوم نہیں بھگوڑا ہے۔ میں آج اسے انسان بنا کر رہوں گا۔
’’ایک بچہ جسے زندگی میں کبھی سکون نہیں ملا۔وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیے ماں باپ بنا ہوا ہے۔ پڑھتا بھی ہے اور کام بھی کرتا ہے۔یہ بھگوڑا نہیں ہے بشارت!یہ انسان نہیں فرشتہ ہے فرشتہ اور فرشتے کو انسان کون بنا سکتا ہیـ‘‘۔ بشارت صاحب کی والدہ پھٹ پڑیں۔
آپ اس کے متعلق یہ سب کیسے کہ سکتی ہیں؟
میں تمھاری ماں ہوں اور آج میں زندہ ہوں تو صرف اسی کی وجہ سے۔بشارت صاحب کی والدہ نے مزید کہا۔
آج بازار میں ماں جی کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔کسی نے ہماری مدد نہ کی۔بس اللہ نے اس لڑکے کو ہمارے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا کہ ہم ہسپتال پہنچ گئے ورنہ۔۔۔۔ اس بار بشارت صاحب کی بیوی بول رہی تھی۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ اگر طبی امداد میں ذرا بھی دیر ہوتی تو ماں جی کی جان کو خطرہ تھا۔اور آپ۔۔۔ اپنے محسن کو پیٹ رہے ہیں۔ ان کی بیوی کی آواز بھرا گئی۔
ٹھک۔۔۔ کے ساتھ ہی بشارت صاحب کے ہاتھوں میں موجود چھڑی زمین بوس ہو گئی۔عزیز کانپتے کانپتے اٹھا اور سر بشارت کے سامنے آکھڑا ہوا۔اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
سر! میں خطا کار ہوں۔۔۔میں نہیں جانتا تھا کہ یہ آپ کی امی ہیں ۔انھیں میری مدد کی ضرورت تھی مجھ سے رہا نہ گیااور اب میں ہسپتال سے انھیں گھر چھوڑنے آیا تھا۔آپ یہ سوچ کر ہاتھ مت روکیے کہ میری وجہ سے آپ کی والدہ کی جان بچی ہے۔میری نیکی رائیگاں جائے گی سر! میں نہیں چاہوں گا کہ میری وجہ سے ایک بااصول شخص بے قاعدگی اپنائے۔ مجھے سزا دیجئے سر! عزیز نے زمین پر پڑی ہوئی چھڑی اٹھا کر بشارت صاحب کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
بشارت صاحب کا ضبط جواب دے چکا تھا۔انھوں نے چھڑی کو جھٹک کر عزیز کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔عجیب منظر تھا۔زمین والوں کے ساتھ آسمان والے بھی رو رہے تھے اور پھر سب نے ایک اور عجیب منظر دیکھا۔تینوں نے ایک ساتھ یتیم بچے کے سر پر اپنے ہاتھ رکھ دئیے تھے۔عالمِ برزخ میں عزیز کے باپ کی روح فخر سے سرشار تھی۔اُس کے باہمت بیٹے نے نہ صرف گھر کے فرض نبھائے تھے بلکہ دنیا والوں کے دل بھی جیت لیے تھے۔روح کی بے چینی سکون میں بدل گئی تھی۔

علی اکمل تصور بچوں کے ادب کا بڑا نام ہے۔ بچوں کے ادب کی تاریخ میں شہرہ آفاق کہانیاں ان کا نام پا کر بچوں اور بڑوں میں مقبولیت کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ قصور سے تعلق رکھنے والے علی اکمل ملکی سطح پر بہت سے ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔

اپنی رائے دیجیے

Please enter your comment!
Please enter your name here